رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا میں بھتے کی 99 فی صد کالز افغانستان سے آتی ہیں؛ آئی جی کا دعویٰ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) معظم جاہ انصاری کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی اور بھتہ خوری کے لیے 99 فی صد ٹیلی فون کالز افغانستان سے آتی ہیں۔

آئی جی معظم جاہ انصاری نے پشاور پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان سے بھتے کی کالز واٹس ایپ کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے حکومت کو آگاہ کر دیا ہے جو اس معاملے میں جلد افغان حکام کے ساتھ بات کرے گی۔

معظم جاہ انصاری سے قبل بھی ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام نہ صرف دہشت گردی بلکہ دیگر جرائم میں اضافے کو سرحد پار افغانستان کے حالات کو قرار دیتے رہے ہیں جب کہ ان کو ہجرت کر کے آنے والے افغان باشندوں سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، وزیرستان، بنوں اور لکی مروت میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اہلکاروں کی استعداد کار کو بڑھایا جا رہا ہے۔ دہشت گرد پولیس کا مورال کم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو رات کے وقت نشانہ بنانے کی وجہ وہ اسلحہ ہے جو دہشت گردوں کے پاس ہے۔

معظم جاہ انصاری کے مطابق صوبے میں ایک لاکھ 29 ہزار پولیس اہل کار موجود ہیں جب کہ چار ہزار 500 پولیس اہل کار وی آئی پیز ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صوبے سے باہر 110 پولیس اہل کار تعینات ہیں جن میں سے 50 اہل کار لاہور کے زمان پارک جب کہ 60 اہل کار بنی گالا میں موجود ہیں۔

آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا کہ وی آئی پیز کے پاس موجود نفری کی وجہ سے عمومی سیکیورٹی پر اثر پڑتا ہے۔

آئی جی پولیس کے بیان پر سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل اپنانا یا طے کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

سید اختر علی شاہ نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان کی موبائل سم کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔

تجزیہ کار مشتاق یوسف زئی کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ بہت پرانا ہے اور آئی جی پولیس کے حکومت کو دیے گئے مشورے کا زیادہ اثر نہیں ہوگا کیوں کہ افغان طالبان کے پاس وسائل کم ہیں۔

افغانستان میں اگست 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ داخلی مشکلات کے وجہ سے دہشت گردی اور بھتہ خوری کے لیے استعمال ہونے والی موبائل سموں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ طالبان حکومت بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب امریکہ کی فوج افغانستان میں موجود تھی اور سابق صدور برسرِ اقتدار تھے تو اس وقت بھی دونوں ممالک میں اس مسئلے کو تفصیل سے زیرِ بحث لایا گیا تھا جب کہ تجاویز پر اتفاق بھی ہوا تھا مگر عملی اقدامات نہیں کیے گئے تھے ۔

سید اختر علی شاہ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان کی موبائل سم کے استعمال کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری پاکستان کے خفیہ اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ انہیں معلومات جمع اور تحقیقات کرنی چاہیے۔ ان سموں کو استعمال کرنے والے دہشت گردوں کو مقامی لوگ ہی معلومات مہیا کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG