رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیغام ہے: زلفی بخاری


زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ان کی جماعت کے خلاف کارروائیوں میں سرگرم رہی، اور ان کے مطابق، اب بھی ہوگی۔
زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ان کی جماعت کے خلاف کارروائیوں میں سرگرم رہی، اور ان کے مطابق، اب بھی ہوگی۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے خلاف اقدامات اور رہنماؤں کی گرفتاریاں حکومت نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیغام ہے۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں زلفی بخاری نے کہا کہ موجودہ حکومت کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ان کی جماعت کے خلاف کارروائیوں میں سرگرم رہی اور ان کے مطابق اب بھی ہوگی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پی ٹی آئی کے حوالے سے اپنائے ہوئے اس راستے کو تبدیل کریں گے۔

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا کہ یہ گرفتاری تحریکِ انصاف کو ایک پیغام ہے۔ پیغامات کا یہ سلسلہ گزشتہ نو ماہ سےجاری ہے۔ البتہ، بقول ان کے، اس سے فرق نہیں پڑا بلکہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح فواد چوہدری نے پی ٹی آئی کی ترجمانی کی، اس نے انہیں جماعت میں مقبول ترین رہنما بنا دیا ہے اور گرفتاری کا مقصد ان پر قابو پانا ہے۔

'اسٹیبلشمنٹ الیکشن کا اعلان کرائے اور پھر نیوٹرل ہو جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:24 0:00

اس سوال پر کہ یہ پیغام حکومت کی طرف سے ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہے، انہوں نے کہا کہ ''موجودہ حکومت کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے''۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے عمران خان پر ریڈ لائن لگانے کی باتیں ناممکن عمل ہے۔ امید ہے کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اسٹیبلشمنٹ کے پرانے راستے کو ترک کرکے نیا راستہ اپنائیں گے۔

'جتنی بڑی حقیقت اسٹیبلشمنٹ ہے اتنی ہی بڑی حقیقت عمران خان کی مقبولیت ہے'

زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اداروں کی طاقت کی بنیاد پر اور عمران خان عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر بہت بڑی حقیقت ہیں اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو تسلیم کریں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے چھ سرکردہ افراد کی رائے، ان کی سوچ، نظریہ اور خیالات ایک حقیقت بن جاتا ہے کیوں کہ ان کے پاس اداروں کی بہت زیادہ طاقت ہے۔

گزشتہ سال اپریل میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا جب کہ عمران خان اپنے حالیہ بیانات میں الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ان کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل تھا۔

'جنرل باجوہ کہتے تھے کرپشن کو چھوڑو'

زلفی بخاری کے مطابق عمران خان نے کبھی بھی اداروں پر تنقید نہیں کی اور پی ٹی آئی اداروں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جس قدر اچھے تعلقات فوج کے ساتھ ہمارے رہے ہیں, بہت کم حکومتوں کے ہوتے ہیں اور یہ ایک حقیقی تعلق تھا جہاں دونوں ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے۔ دو تین سال ایک صفحے پر رہنے کے بعد تعلقات میں کچھ بداعتمادی پیدا ہوئی اور یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہوتا ہے جب آپ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔

عمران خان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اختلافات کی بنیاد پر بات کرتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا کہ اس کی کئی وجوہات تھیں جس میں بنیادی بات بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا ان کا نظریہ تھا۔ جنرل باجوہ عمران خان کو کہتے تھے کہ چھڈو جی، جس نے جو بھی کیا ہے آپ معیشت پر توجہ دیں۔

زلفی بخاری کہتے ہیں کہ ان کے دور میں معیشت بہت بری لگ رہی تھی، تو سوال یہ ہے کہ اب معیشت کیسی لگ رہی ہے؟ جب ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔ کرپشن کے خلاف اقدامات نہ لینا جنرل باجوہ کا نظریہ تھا لیکن عمران خان اسے چھوڑ نہیں سکتے تھے کیوں کہ عوام نے احتساب کے نام پر انہیں ووٹ دیے تھے۔

عمران خان کے جنرل (ر) باجوہ کو توسیع دینے کے معاملے پر زلفی بخاری نے کہا کہ وہ توسیع اس وقت کے حالات میں دی گئی تاکہ پالیسیوں کے تسلسل سے ملک میں استحکام آئے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل، آگے کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:40 0:00

زلفی بخاری کے مطابق جنرل باجوہ کی توسیع کا فیصلہ غلط تھا۔ فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا قانون اور سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

'اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار نہیں'

وہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو غیر جانب دار نہیں ہونا چاہیے بلکہ انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی غیر جانب دار نہیں رہی۔ ان کے بقول موجودہ حالات میں بھی انہیں نیوٹرل نہیں ہونا چاہیے۔

ان کے بقول اس وقت اگر مداخلت نہیں ہے تو موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر چھ سے 12 گھنٹے سے زیادہ نہیں چل سکتی۔

زلفی بخاری کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں عام انتخابات کے علاوہ ملک میں استحکام کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب و خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 500 کے قریب نشستوں پر انتخاب ہونے ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی 124 نشستوں پر بھی ضمنی الیکشن ہوں گے تو ایسے میں قبل از وقت انتخابات سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت عام انتخابات وقت پر کراتی ہے تو پہلے دو صوبائی اسمبلیوں، پھر 124 قومی اسمبلی کی نشستوں اور اکتوبر میں عام انتخابات ہوں گے۔ موجودہ حالات میں کیا ملک ایک سال میں تین انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے؟

پی ٹی آئی رہنما کا الیکشن کے حوالے سے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی صرف دو صوبوں میں انتخاب کے لیے بھی تیار ہے اور اب دیکھتے ہیں حکومت الیکشن نہ کرانے کے کون کون سے بہانے تلاش کرتی ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے پر پارٹی میں مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔ تاہم اس فیصلے سے جماعت متحرک ہوئی جس کا انتخابی سال میں بہت فائدہ ہوگا۔

حکومت سے بات چیت کی تردید

انہوں نے بتایا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کسی سطح پر بات چیت نہیں ہو رہی اور حکومت کے ساتھ اسی صورت مذاکرات ہو سکتے ہیں جب وہ اعلان کرے کہ قبل از وقت انتخابات کے لیے تیار ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان کو مائنس، گرفتار یا نااہل کرنے سے حکومت کو سیاسی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ان اقدامات سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس مقبولیت کی بنیاد پر پی ٹی آئی حکومت میں آئے گی اور ان قوانین کو ختم کر دے گی جس کی بنیاد پر عمران خان کو نااہل کیا جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ خدانخواستہ عمران خان کو ختم کرنے کی کوشش کے علاوہ مائنس کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

'بشری بی بی کے ساتھ گفتگو لیک ہونے پر عدالت جارہا ہوں'

زلفی بخاری کہتے ہیں کہ خاتون اول کے ساتھ ان کی جاری ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو وزیرِ اعظم کی محفوظ لائن پر تھی اور سوال کیا کہ کون وزیر اعظم ہاؤس کی محفوظ لائن کو بگ کرتا رہا؟

انہوں نے کہا کہ جاری ہونے والی بات چیت میں متعدد فون کالز کی ریکارڈنگ کو توڑ موڑ کر سامنے لایا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی محفوظ ٹیلی فون لائن بھی محفوظ نہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ 10 سے 12 مختلف مواقع کی ٹیلی فونک بات چیت کو ایڈیٹ کرکے ایک گھٹیا قسم کی گفتگو بنانے کی کوشش کی گئی جس پر وہ عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔

حال ہی میں خاتون اول بشری بی بی اور زلفی بخاری کی ٹیلی فونک بات چیت کی ایک آڈیو سامنے آئی تھی جس کے بعد سوشل میڈیا پر مبینہ آڈیو لیک کے حوالے سے تبصروں اور میمز کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

بشری بی بی کے حکومتی معاملات میں مداخلت پر زلفی بخاری نے کہا کہ وہ ایک گھریلو، مذہبی خاتون ہیں ۔ ان کی نہ ہی حکومت اور نہ ہی جماعت میں کوئی دخل اندازی تھی۔

انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی نے سیاست تو بہت دور کی بات، خود کو گھر تک محدود کررکھا ہے اور بحثیت خاتونِ اول جو کردار ان کا حکومتی معاملات میں طے شدہ ہے انہوں نے وہ کردار بھی ادا نہیں کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے خود سے اپنے لیے زندگی کا یہ انداز چن لیا ہے تو ہمیں انہیں سیاست میں ملوث نہیں کرنا چاہیے۔

پی ٹی آئی اور امریکہ میں رابطے

زلفی بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان کے حکومت کے خاتمے کے حوالے سے امریکی مداخلت کے بیانات کے باوجود پی ٹی آئی کے واشنگٹن ڈی سی سے تعلقات بہتر ہوسکیں گے اور اس حوالے سے اندرونی طور پر کچھ نرمی بھی پیدا ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ری پبلکن کے دور میں ان کی حکومت کے امریکہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے البتہ واشنگٹن ڈی سی میں حکومت کی تبدیلی کے بعد تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عالمی دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ایک بات پر ڈٹا رہا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کا حریف نہیں بلکہ دوست و اتحادی ملک ہے۔ عمران نے اپنے دونوں دورۂ امریکہ کے دوران یہی مؤقف اپنایا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی سے برابری کی بنیاد پر دوستی اور تعلقات چاہتے ہیں۔

زلفی بخاری پی ٹی آئی اور امریکہ کے تعلقات پر مزید کہا کہ ری پبلکن کے دور میں عمران خان کے دونوں دورۂ امریکہ بہت کامیاب رہے لیکن اس وقت بھی امداد نہیں مانگی بلکہ تجارت کی بات کی گئی۔

عمران خان کہتے رہے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے میں امریکہ کا ہاتھ تھا، تاہم حالیہ دنوں میں انہوں نے امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات پر زود دیتے ہوئے کہا کہ امریکی مداخلت کا معاملہ ختم ہوچکا اور اب وہ آگے بڑھ چکے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا عمران خان امریکہ مخالف بیانات میں کچھ زیادہ آگے چلے گئے تھے، زلفی بخاری نے کہا کہ عمران خان نے اپنے بیان کو واپس نہیں لیا بلکہ کہا کہ وہ اس معاملے کو ملک کی خاطر پیچھے رکھنے کو تیار ہیں۔

وہ کہتے ہیں یہ دونوں ملکوں کے لیے بہت ضروری ہے، اس میں کوئی انا نہیں تھی کہ امریکہ نے مجھے ہٹایا تو میں بات نہیں کروں گا۔

XS
SM
MD
LG