پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جہلم شہر میں ایک شخص نے اپنی اہلیہ کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور اطلاعات کے مطابق بظاہر یہ 'غیرت کے نام پر قتل' کا واقعہ معلوم ہوتا ہے۔
مقتولہ عظمٰی خان جرمنی میں بطور ڈاکٹر کام کرتی تھیں اور وہ پاکستان اور جرمنی کی دہری شہریت کی حامل تھیں۔
پولیس کے مطابق مقتولہ گزشتہ ہفتے ہی اپنے شوہر شہباز علی، بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ جرمنی سے پاکستان پہنچی تھی۔
پولییس نے مقتولہ کی بہن کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کے بعد اس واقعہ کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
جہلم پولیس کے ایک انسپکٹر چوہدری محمد الیاس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ واقعہ منگل کو پیش آیا اور ملزم شہباز علی کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں اپنی اہلیہ ڈاکٹر عظمٰی کے قتل کا اعتراف بھی کر لیا ہے
محمد الیاس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کا مطابق اس واقعہ کا محرک گھریلو جھگڑا تھا۔
" ان کے درمیان گھریلو چپقلش کافی عرصے سے جاری تھی اور دو دن سے ان کے مابین بنک اکاؤنٹ کھلوانے پر بحث ہو رہی تھی وہ کہتی تھی کہ وہ الگ (بنک) اکاؤنٹ کھلوانا چاہتی تھی، یہ (شوہر) کہتا تھا کہ مشترکہ بنک اکاؤنٹ کھلواؤ تو بظاہر یہ ان کا گھریلو جھگڑا تھا۔"
تاہم محمد الیاس نے کہا کہ پولیس اس معاملے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کررہی ہے۔
صوبہ پنجاب کے کمیشن برائے حقوق نسواں کی چیئر پرسن فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اب ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
"ایسے تمام کیسوں کی ہم ذاتی طور پر نگرانی کرتے ہیں ۔۔۔اب پولیس باقاعدہ ان مقدمات کا اندراج کرتی ہے میں نے خود ایسے کیس دیکھے ہیں کہ جب خاندان مدعی نہیں بنتا تو پولیس کی مدعیت میں ایسے مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور ریاست خود مدعی بن جاتی ہے تاکہ ایسے واقعات کو کھلی چھٹی نا ملے اور جو لوگ صلح کر کے (پہلے) چھوٹ جاتے تھے اب ایسا نا ہو۔"
غیرت کے نام پر قتل کے خلاف حال ہی میں منظور کیے جانے والے قوانین کے تحت ان جرائم کا نشانہ بننے والوں کے ورثاء کو مجرموں کو معافی دینے کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ ماضی میں مروجہ قوانین کے مطابق مقتول کے ورثا کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ قاتل کو معاف کر سکتے ہیں اور اسی قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر مجرم سزا سے بچ جاتے تھے۔
فوزیہ وقار نے کہا کہ قانون میں موثر تبدیلی اور سخت سزاؤں کے باوجود ایسے واقعات اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک عورتوں سے متعلق منفی سماجی رویوں میں تبدیلی نہیں آتی ہے اور ان کے بقول اس کے لیے قانون کا اطلاق کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔
پاکستان میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اپنی پسند کی شادی یا قبائلی و خاندانی رسم و رواج کے برعکس راہ اختیار کرنے پر قتل کر دی جائی ہیں۔