کراچی
پاکستان کے جدید شہر کراچی میں ایک مبینہ خاندانی جرگے کے فیصلے پر پسند کی شادی کرنے والے ایک لڑکے اور لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن کی پولیس نے غیرت کے نام پر قتل کی واردات کی اطلاع ملنے پر چھ افراد کو شبے کی بنیاد پر گرفتارکرلیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق جوڑے کو خااندان کے افراد نے گلا گھونٹ کر مارا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول جوڑے نے تین برس قبل اہلخانہ کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کی تھی اور اورنگی ٹاون کے علاقے میں رہ رہے تھے
مقتولین کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے ایک گاوں سے بتایاجاتا ہے۔ لڑکا لڑکی دونوں آپس میں رشتے دار بھی تھے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے دونوں میاں بیوی پہلے سے شادی شدہ تھے۔ پسند کی شادی ان کی دوسری شادی تھی۔ مقتول عصمت اللہ کے پانچ بچے بھی بتائے جاتے ہیں۔ جبکہ قتل ہونے والی خاتون اپنے پہلے شوہر سے طلاق لینے کے بعد عصمت کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی
ان دونوں کو اہلخانہ نے ملاقات کی غرض سےشاہ لطیف ٹاون بلوایا۔ پھر خاندانی جرگے نے گھروالوں کی مرضی کے بغیر پسند کی شادی کو باعث انھیں غیرت کے نام پر ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا جس پر انھیں قتل کرنے کے بعد خاموشی سے قریبی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
واقعے سے متعلق متعلقہ پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاوس آفیسر شاہ لطیف ٹاؤن راجا عباس وی او اے کو بتایا کہ " جرگے نے فیصلہ کیا کہ دونوں کو خاندان کی مرضی کے خلاف جانے پر قتل کردیاجائے"۔
ایس ایچ او پولیس نے مزید بتایا کہ " گرفتار افراد کا کہنا ہے کہ دونوں کو صلح کرنے کے نام پر بلوایا گیا تھا بعد ازاں ان کو معافی قبول نہیں کی گئی اور رات کے اندھیرے میں گلا گھونٹ کر قتل کردیاگیا۔
ایس ایچ او کے مطابق "مبینہ طور پر قتل میں تمام اہل خانہ ملوث ہیں' جس میں لڑکی اور لڑکے کے بھائی ماموں اور ماموں زاد بھائی ہیں"۔
پولیس کی جانب سے دوہرے قتل کی واردات میں سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے مقتولین کی قبر کشائی کی اجازت کیلئے مجسٹریٹ کو خط لکھ دیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے مرکزی ملزم جو مقتولہ کا شوہر ہے اور بھائی دونوں فرار ہیں جن کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ دوسری جانب آئی جی سندھ نے معاملے کا نوٹس لےکر متعلقہ افسران کو جلد رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن سندھ کے صوبائی وائس چیئرپرسن اسد بٹ وی او اے سے کہا کہ "ہم ابھی تک جاگیرداری اور قبائلی نظام سے باہر نہیں نکل سکے"۔
ان کا کہنا تھا کہ "ایسے کیسز میں وارث ہی قاتل ہوتے ہیں۔ گھر کے خاندان کے افراد کا قتل گھر کا معاملہ نہیں بلکہ قانونی جرم ہے' ان کے بقول " ریاست بیرونی دباؤ کے سبب قوانین تو پاس کرلیتی ہے ، لیکن ان پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہتی ہے، ریاست اور معاشرہ جب تک اپنا کردار ادا نہیں کرین گے ایسے جرائم اور واقعات نہیں روکےجاسکتے"۔
اکتوبر میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر بڑھتے ہوئے قتل کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک بل منظور کیا ہے، جس میں ایسے واقعات میں خاندان کی جانب سے معاف کردینے کے اختیار کو ختم کرکے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کی رپورٹ کے مطابق غیرت کےنام پر قتل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔