امریکہ کی جنوب مشرقی ساحلی ریاستوں کے نزدیک بحرِ اوقیانوس میں بننے والے طوفان 'فلورینس' کی شدت کم ہوگئی ہے لیکن حکام نے خبردار کیا ہے کہ طوفان اب بھی ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا ہے۔
امریکہ کے 'نیشنل ہریکین سینٹر' کے مطابق طوفان کے زیرِ اثر چلنے والی ہواؤں کی شدت 225 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہو کر 175 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگئی ہے جس کے بعد اس کی شدت 'کیٹیگری 3' سے 'کیٹیگری 2' کردی گئی ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ ساحلی علاقوں سے ٹکرانے سے قبل طوفان کی شدت میں مزید کمی آنے کا امکان ہے لیکن طوفان کی شدت میں کمی آنے کے باوجود اس کا حجم بڑھ رہا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ طوفان کا حجم بڑھنے کے باعث امکان ہے کہ اس کے اثرات زیادہ دیر تک رہیں گے جس کے باعث ساحلی علاقوں سے بلند سمندری لہریں ٹکرانے اور دیر تک طوفانی بارشیں ہونے کا خدشہ ہے۔
'نیشنل ہریکین سینٹر' کے مطابق طوفان بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب شمالی کیرولائنا کے ساحلی قصبے وِلمنگٹن سے 455 کلومیٹر مشرق میں تھا جو شمال مغرب کی جانب 28 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ طوفان کی رفتار انتہائی سست ہے جب کہ اس کا دائرہ خاصا وسیع ہے جس کے باعث یہ زیادہ دیر تک ساحلی علاقوں پر رہے گا اور زیادہ نقصان کا سبب بنے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شدت میں کمی کے باوجود 'فلورینس' گزشتہ 60 سال کے دوران شمالی اور جنوبی کیرولائنا کی ریاستوں کو نشانہ بنانے والا سب سے شدید طوفان ہوگا۔
سینٹر کے مطابق 'فلورینس' جمعے کی صبح یا دوپہر کو شمالی اور جنوبی کیرولائنا کی ساحلی پٹی سے ٹکرائے گا جس کے زیرِ اثر جارجیا اور ورجینیا کی ریاستوں میں بھی طوفانی بارشیں ہوں گی۔
حکام نے خبردار کیا ہے کہ طوفان کے باعث کئی میٹر بلند سمندری لہریں ساحلی علاقوں سے ٹکرائیں گی جن سے ان علاقوں کے زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے۔
طوفان کے زیرِ اثر جن علاقوں میں طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے وہاں بھی حکام نے رہائشیوں کو خبردار کیا ہے کہ بارش کے باعث آبادیوں کے زیرِ آب آنے کا انتہائی خطرہ ہے۔
امریکہ کی 'نیشنل ویدر سروس' نے کہا ہے کہ طوفان سے براہِ راست متاثر ہونے والے علاقوں میں 50 لاکھ سے زائد افراد مقیم ہیں جب کہ دیگر 49 لاکھ ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں طوفان کے باعث طوفانی بارشیں اور سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔
حکام نے ساحلی قصوبوں اور طوفان کے راستے میں آنے والی آبادیوں سے لگ بھگ 17 لاکھ افراد کو گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا حکم دیا ہے جس کے بعد شمالی و جنوبی کیرولائنا اور ورجینیا کی ریاستوں کے ساحلی علاقوں سے بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہو رہا ہے۔
طوفان کے خطرے کے پیشِ نظر اب تک ایک ہزار پروازیں منسوخ ہوچکی ہیں اور مزید سیکڑوں پروازیں منسوخ ہونے کا امکان ہے۔
امریکہ میں بجلی کی ترسیل کی دوسری بڑی کمپنی 'ڈیوک انرجی' نے کہا ہے کہ اسے خدشہ ہے کہ طوفان کے باعث جنوبی اور شمالی کیرولائنا میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو انتہائی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کمپنی نے کہا ہے کہ اس نے کسی متوقع نقصان کے بعد بحالی کے کاموں کے لیے دیگر ریاستوں سے بھی اپنا عملہ طلب کرلیا ہے لیکن اس کے باوجود طوفان کے بعد بجلی کی بحالی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر طوفان نے اپنا راستہ تبدیل کیا تو اس سے جنوبی ساحلی ریاست جورجیا بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
اس خطرے کے پیشِ نظر جورجیا کے گورنر ناتھن ڈیل نے ریاست میں ہنگامی حالت نافذ کردی ہے لیکن فی الحال ساحلی علاقوں سے آبادی کو انخلا کا حکم نہیں دیا گیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت طوفان کے نتیجے میں جنم لینے والی کسی بھی طرح کی صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے طوفان کے راستے میں آنے والے علاقوں کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ طوفان کو مذاق نہ سمجھیں اور فوراً محفوظ مقامات پر منتقل ہوں۔
صدر نے شمالی و جنوبی کیرولائنا اور ورجینیا کی ریاستوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے ہنگامی حالت نافذ کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے جس کے بعد وفاقی اداروں اور وسائل کو ریاستی انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کیا جاسکے گا۔