امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین تنازع کے لیے دو ریاستی حل پر مبنی منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم فلسطین نے اس منصوبے کو یکسر مسترد جب کہ اسرائیل نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
عالمی برادری نے بھی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں پیش کیے گئے منصوبے پر ردعمل دیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن معاہدے کے تحت یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا اور ابو دس فلسطین کا دارالخلافہ کہلائے گا اور دونوں کے درمیان کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ حاصل ہو گا۔
سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ سعودی بادشاہ نے فلسطینی صدر کو یقین دلایا کہ سعودی عرب فلسطین کے حوالے سے اپنے دیرینہ موقف پر قائم رہے گا۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان کی حکومت نے اسرائیل، فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔
لیکن پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اعلان کردہ منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان ایسے قابل عمل منصوبے کی حمایت کرے گا۔ جس پر فریقین متفق ہوں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے دیرینہ موقف کو دہراتا ہوئے صرف اس دو ریاستی فارمولے کا حامی ہے، جس میں 1967 سے قبل فلسطین کے زیر اثر علاقوں کو فلسطین جب کہ بیت المقدس اس کا دارالحکومت ہو۔
خیال رہے کہ 1967 کی عرب، اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے یروشلم، غرب اُردن اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
ٹرمپ منصوبے کا جائزہ لیں گے
فرانس نے کہا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔ البتہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔
فرانس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن نہایت احتیاط کے ساتھ اس منصوبے کا جائزہ لیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قوانین اور عالمی برادری کی جانب سے اتفاق رائے پر مبنی حل ہی اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کا ضامن ہے۔
'عرب لیگ نے اُصول وضع کر دیے تھے'
قطر نے کہا ہے کہ امن کے لیے کی جانے والی ان کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ تاہم فلسطینیوں کو رعایت دیے بغیر اس تنازع کا دیرپا حل ممکن نہیں ہے۔
قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی امن کوششوں کو سراہتے ہیں۔ لیکن عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہی مسئلے کا حل ممکن ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 2002 میں تمام عرب ممالک نے عرب لیگ کے پلیٹ فارم پر اس ضمن میں اُصول وضع کیے تھے جو قیام امن کے لیے بہت مفید ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا موقف
متحدہ عرب امارات کے امریکہ میں سفیر یوسف ال عتیبہ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ، مذاکرات کی بحالی کے لیے نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین کی رضا مندی امن منصوبے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ متحدہ عرب امارات کو یقین ہے کہ عالمی برادری کی کوششوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
'منصوبہ مسترد کرتے ہیں'
ایران نے صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ مسترد کرتے ہوئے اسے مزید پابندیاں اور دھونس جمانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کے مشیر حسیم الدین نے ٹوئٹر پر کہا کہ فلسطینیوں کو مشاورت میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ درحقیقت یہ منصوبہ صیہونی ریاست اور امریکہ کی جانب سے خطے میں دھونس جمانے کی کوشش ہے۔
بعدازاں ایرانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ شرمناک اور مکمل طور پر ناقابل عمل ہے۔
اُردن نے بھی فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کی منصوبے میں تجویز کو مسترد کیا ہے۔
اُردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی کا کہنا ہے کہ مشرقی یروشلم کو آزاد فلسطین ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیے بغیر کوئی بھی حل قابل قبول نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا عالمی قوانین اور عرب لیگ کی سفارشات پر عمل درآمد سے ہی مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔
مصر نے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست ہی مسئلے کا حل ہے۔ ایسی ریاست جس میں فلسطینی شہریوں کو تمام حقوق حاصل ہوں۔
ترکی کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے وائس چیئرمین نعمان کرتلمس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے صدر ٹرمپ کے بیان پر کہا کہ "جناب صدر یروشلم آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہی ہو گا۔"
اقوامِ متحدہ اور برطانیہ کا ردعمل
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کے ترجمان نے منصوبے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں اُن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم بورس جانسن نے اتفاق کیا ہے کہ امن منصوبے کے لیے پیش کی جانے والی سفارشات سے مسئلے کا حل ممکن ہو سکے گا۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کو امن منصوبے کے حوالے سے مثبت اقدامات اُٹھانے چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ "بلاشبہ یہ ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ لہذٰا فریقین کو اسے موقع دینا چاہیے تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔"
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ ہر اس منصوبے کی حمایت کرتی ہے۔ جس سے خطے کے ممالک 1967 سے قبل کی سرحد بندی کے تحت امن و سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔