|
ویب ڈیسک _ واخان راہداری افغانستان میں شامل ایسی زمینی پٹی ہے جو افغانستان کو چین کا پڑوسی بنا دیتی ہے اور یہی پٹی وسطیٰ ایشیا کے ملک تاجکستان کو پاکستان سے الگ کرتی ہے۔
واخان کوریڈور یا راہداری افغانستان کے انتہائی شمال مشرق میں صوبہ بدخشان کے اشکاشم علاقے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ پٹی دراصل برصغیر پاک و ہند کو وسطی ایشیا سے کاٹنے کے لیے بنائی گئی تھی جس کے اپنے تاریخی اسباب تھے۔
تاہم آج کل واخان کوریڈور پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باعث توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
چار ممالک کے درمیان یہ چھوٹی سی راہداری کیسے وجود میں آئی؟ اس کی تاریخ ہندوستان میں برطانوی سلطنت اور خطے کی بڑی طاقت روس کے درمیان جاری کشمکش سے جا ملتی ہے۔
واخان ہے کہاں؟
واخان افغانستان کے صوبے بدخشان میں شامل ہے اور اس کا آغاز اسی صوبے کے علاقے اشکاشم سے ہوتا ہے۔ 350 کلومیٹر طویل یہ زمینی پٹی جس کی کم سے کم چوڑائی 16 کلو میٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 64 کلومیٹر ہے، افغانستان کو چین کا پڑوسی بناتی ہے۔
چین کا صوبہ سنکیانگ واخان کوریڈور سے ملتا ہے جب کہ شمال میں تاجکستان اور جنوب میں پاکستان کے صوبۂ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحدیں اس راہداری سے ملتی ہیں۔
واخان پامیر، ہندو کش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے بھی ملتا ہے اور یہ چین سے وسطی ایشیا، ہندوستان اور یورپ کی جانب جانے والے تاریخی تجارتی راستے شاہراہِ ریشم پر بھی واقع ہے۔
یہ علاقہ کوشانی سلطنت میں بھی شامل رہا۔ تاہم اس نے انیسویں صدی میں سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلیوں کا سامنا کیا۔
افغانستان کے محکمۂ شماریات کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق واخان کی آبادی 17 ہزار سے زائد ہے۔ اس علاقے میں واخی باشندوں کی اکثریت ہے اور اس علاقے کا نام بھی اسی کمیونٹی کی وجہ سے پڑا ہے۔
واخی کمیونٹی کی اکثریت اسماعیلی ہے جب کہ بہت کم تعداد میں سنی کرغز بھی اس آبادی میں شامل ہیں۔ یہ لوگ مقامی واخی زبان اور فارسی بھی بولتے ہیں۔
انیسویں صدی میں روس اور برطانیہ کی آمد کے وقت واخان ایک نیم خود مختار ریاست تھی جو بدخشان اور چین کی حکومتوں اور سلطنتوں کے ماتحت رہی۔
ڈیورنڈ لائن اور واخان
انیسویں صدی میں خطے میں دو بڑی نو آبادیاتی قوتیں روس اور برطانیہ وسطی ایشیا، افغانستان اور تبت کے علاقوں میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے متحرک تھیں۔ خطے میں جاری طاقت کے اس کھیل کو ’گریٹ گیم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
روس 1865 تک ترکستان کا علاقہ فتح کر چکا تھا جس میں وسیع وسطی ایشیائی خطہ شامل تھا جس میں آج کے ممالک تاجکستان، کرغزستان، قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل تھے۔ ادھر 1857 کی بغاوت کی ناکامی کے بعد سلطنتِ برطانیہ تیزی سے ہندوستان میں اپنے قدم جما چکی تھی اور اس کی نظریں افغانستان پر تھیں۔
اسی دور میں اقتدار کی جاری کشمکش کے بعد امیر عبدالرحمان 1880 میں افغانستان کے فرماں روا بنے تو انہیں اپنے پڑوس میں اپنے دور کی بڑی سلطنت روس کی جانب سے خطرات لاحق تھے۔
اس سے قبل 1878 سے 1880 کے دوران افغانستان اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں امیر عبدالرحمان کے چچا شیر علی نے روس کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس کوشش میں ناکامی کے بعد شیر علی نے اقتدار اپنے بیٹے یعقوب کے حوالے کر دیا تھا۔ یعقوب نے برطانیہ کو پورے ملک پر قابض ہونے سے روکنے کے لیے 1879 میں معاہدۂ گندمک پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں افغانستان کے خارجہ امور پر برطانیہ کا مکمل اختیار تسلیم کر لیا گیا تھا۔
افغانستان میں اس معاہدے کی شدید مخالفت ہوئی جس کے نتیجے میں محمد یعقوب کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور امیر عبدالرحمان افغانستان کے حکمران بن گئے۔
افغانستان کی مختصر تاریخ مرتب کرنے والی امینڈا رورابیک کی کتاب 'افغانستان اِن نٹ شیل' کے مطابق افغانستان میں تقسیم اور انتشار کو روس اپنے لیے سازگار تصور کرتا تھا۔ چناں چہ ملک کے داخلی حالات پر قابو پانے کے لیے درکار وسائل اور ہتھیاروں کے لیے امیر عبدالرحمان کا انحصار برطانیہ پر تھا۔
امیر عبدالرحمان کی مجبوریوں اور افغانستان کے خارجہ امور پر بالادستی قائم ہونے کے بعد برطانیہ نے اس خطے میں اپنے دو بڑے مقاصد حاصل کیے۔
مؤرخین کے مطابق برطانیہ افغانستان کی صورت میں خطے میں اپنے حریف روس کے خلاف ایک مضبوط 'بفرزون' قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس بفرزون کو بنانے کا مقصد ایک ایسے علاقے کا تعین کرنا تھا جو دو حریف قوتوں کے درمیان ایک فاصلہ برقرار رکھے۔ لیکن اس سے قبل برطانیہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں کا تعین بھی کرنا چاہتا تھا۔
برطانیہ نے سرحدوں کے تعین کے بدلے امیر عبدالرحمان کو سالانہ امدادی رقم میں اضافے کی پیش کش کی۔ عبدالرحمان کے لیے اس وقت کے حالات میں یہ پیش کش ٹھکرانا ممکن نہیں تھا۔
برطانوی دور میں ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ ڈیورنڈ مورٹیمر اور امیر عبدالرحمان کے درمیان 12 نومبر 1893 کو کابل میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جسے 'ڈیورنڈ لائن ایگریمنٹ' کہا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ایک ایسی لکیر کھینچی گئی جس نے دونوں جانب بسنے والے کئی پشتون آبادیوں کو تقسیم کر دیا۔
اس معاہدے کے بعد برطانیہ اور روس کے مشترکہ سرحدی کمیشن نے شمالی افغانستان کی سرحدوں کا تعین کیا اور یہاں بھی برِصغیر کو وسطی ایشیا میں روسی کنٹرول کے علاقوں سے دور رکھنے کے لیے بفرزون بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بفر زون بنانے کے لیے شمالی افغانستان کی سرحد پر 96-1895 میں واخان کی پٹی امیر عبدالرحمان کے حوالے کر دی گئی۔
اس سے قبل واخان کے علاقے میں پہلے کبھی ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی تھی جو بدخشان اور چین کے چن خاندان کے ماتحت تھی۔
امیر عبدالرحمان کو شروع میں یہ علاقہ افغانستان میں شامل کرنے میں دلچسپی نہیں تھی لیکن برطانیہ کی جانب سے سالانہ 50 ہزار روپے کی اضافی امداد کی وجہ سے انہوں نے یہ علاقہ لینے پر رضا مندی ظاہر کردی تھی۔
اس طرح واخان بھی افغانستان کو پاکستان سے الگ کرنے والا تقریباً 2640 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن کا حصہ بن گیا۔
مؤرخ لڈونگ ڈبلیو ایڈمیک کے مطابق ڈیورنڈ لائن بناتے ہوئے اس علاقے کی آبادی سے متعلق لسانی اور نسلی حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا اس خطے میں آباد پشتون قبائل کی مخالفت کی وجہ سے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم نہیں کیا جا سکا۔
امیر عبدالرحمان کے انتقال کے بعد آنے والے افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کو برطانیہ کے ساتھ ان کا ذاتی معاہدہ قرار دے کر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
قیامِ پاکستان اور ڈیورنڈ لائن
جب برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا اور یہاں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو الگ الگ ریاستیں قائم ہونا طے پایا تو ڈیورنڈ لائن کے تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔
افغانستان کا اعتراض تھا کہ جب اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) میں رائے شماری کرائی گئی تو ڈیورنڈ لائن میں ہندوستان کی جانب رہنے والے پشتونوں کو صرف بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا اور افغانستان کا آپشن شامل نہیں کیا گیا۔
افغانستان کی حکومت نے 1947 میں یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ اس علاقے میں 'پشتونستان' قائم کر کے اسے افغانستان یا پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کا اختیار دیا جائے۔
اسی بنیاد پر افغانستان نے قیامِ پاکستان کے بعد اقوامِ متحدہ میں اس کی شمولیت کی مخالفت کی اور بعد ازاں 1979 میں اس وقت کی افغان پارلیمنٹ نے بھی ڈیورنڈ معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
لڈونگ ڈبلیو ایڈمیک کے مطابق قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک ڈیورنڈ لائن اور پشتونستان کے قیام کا معاملہ دونوں ممالک کے درمیان وجۂ نزاع ہے۔ مؤرخ لڈونگ ایڈمیک کہتے ہیں کہ اسی تنازع کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی خوش گوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔
واخان پر تند و تیز بیانات کیوں؟
گزشتہ ماہ دسمبر کے آخر میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر پکتیکا میں مبینہ فضائی حملوں میں ہلاکتوں کے بعد افغانستان کی طالبان حکومت اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی میں شدت آ رہی ہے۔
پاکستان نے اس کارروائی کی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم ذرائع ابلاغ میں سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے چلنے والی رپورٹس کے مطابق اس کارروائی میں پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
تاہم افغان طالبان نے الزام عائد کیا تھا کہ پکتیکا میں کیے گئے حملے میں تقریباً 50 شہری ہلاک ہوئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔
اس کارروائی کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر جھڑپوں اور کشیدگی کی اطلاعات سامنے آنے لگیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگی ہیں کہ پاکستان نے واخان کوریڈور پر قبضے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
طالبان حکام نے نہ صرف ان رپورٹس کو مسترد کیا بلکہ ان پر انتہائی شدید ردِ عمل بھی ظاہر کیا ہے۔
کابل کی طالبان حکومت کے نائب وزیرِ خارجہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے ایک پوسٹ میں سخت تنقید کی اور کہا کہ پاکستان کے لیے اپنے داخلی عدم استحکام اور معیشت کی وجہ سے کوئی نئی جنگ شروع کرنا ممکن نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ پاکستان کی فوج کا ریکارڈ خراب ہے۔ انہوں نے 1971 کی جنگ میں مشرقی حصہ گنوا دیا تھا جو اب بنگلہ دیش ہے اور اس کے 93 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے جو جدید تاریخ کا سب سے بڑا سرینڈر ہے۔
تاریخ سے زیادہ اسٹرٹیجک اہمیت
مبصرین کے مطابق واخان راہداری کی جیوپولیٹیکل اہمیت اس کی تاریخی اہمیت سے زیادہ ہے۔
یہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان مختصر ترین راستہ ہے اور پاکستان کو براہِ راست وسطی ایشیا کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں چترال سے واخان کے ذریعے وسطی ایشیا تک رسائی کے منصوبے زیرِ غور رہے ہیں۔ اسی طرح واخان کی راہداری چین کو افغانستان کا براہِ راست راستہ فراہم کرتی ہے۔
تاہم افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان اور تاجکستان کے درمیان واخان کے ذریعے کسی براہِ راست راستے یا کوریڈور کی تعمیر کی حامی نہیں رہی اور ایسے کسی منصوبے کو خطے میں اپنی اسٹرٹیجک اہمیت کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
اس کے علاوہ بھارت بھی کشمیر میں شامل تمام علاقوں کو اپنا حصہ قرار دینے کی وجہ سے واخان کے ذریعے افغانستان کا پڑوسی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور واخان میں پاکستان کے کسی ممکنہ منصوبے کی مخالفت کرتا ہے۔
فورم