رسائی کے لنکس

افغان سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات: 'ملا عمر نے بھی ڈیورنڈ لائن پر صاف جواب دے دیا تھا'


پاکستانی فوج کے مطابق افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا کام 90 فی صد مکمل ہو چکا ہے۔
پاکستانی فوج کے مطابق افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا کام 90 فی صد مکمل ہو چکا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو 'ڈیورنڈ لائن' کہا جاتا ہے جسے پاکستان تو مستقل سرحد مانتا ہے لیکن افغانستان اس کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کرتا۔

پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا تنازع ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر افغانستان میں قائم ہونے والی ہر منتخب اور غیر منتخب حکومت کا مؤقف یکساں رہا ہے۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن پر تنازع شروع ہو گیا تھا اور اسی تنازع کی وجہ سے افغانستان 1947 میں وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں شمولیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

اگرچہ اس تنازع پر دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست کوئی مسلح تصادم تو نہیں ہوا لیکن دہائیوں سے ایک سرد جنگ جاری ہے۔

سن 2017 میں جب پاکستان نے دہشت گردی، اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کو بنیاد بناتے ہوئے افغانستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں سرحدی باڑ لگانا شروع کی تو اس تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔

بعد ازاں باڑ کی تنصیب کے دوران کچھ سرحدی علاقوں میں کشیدگی کے واقعات بھی سامنے آئے۔ لیکن پاکستان نے سرحد پر باڑ کی تنصیب اور افغانستان کی حکومت نے اس کی مخالفت جاری رکھی۔

پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی سرحد کو جائز قرار دیتا آیا ہے اور اس کا مؤقف رہا ہے کہ انٹرنیشنل بارڈر پر باڑ لگانا اس کا حق ہے۔ اسلام آباد نے ہمیشہ اس معاملے پر افغانستان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو مسترد کیا ہے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب 90 فی صد مکمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:03 0:00

رواں برس اگست میں پاکستان کی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ 90 فی صد علاقے پر باڑ لگانے کا کام مکمل کر چکی ہے۔ اسی ماہ طالبان نے کابل میں داخل ہو کر اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

حال ہی میں طالبان اہلکاروں کی جانب سے سرحد پر لگائی گئی باڑ ہٹانے کے واقعات سامنے آئے ہیں جن کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ اس سے ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اور اس پر بحث سر اٹھاتی نظر آ رہی ہے۔

حالیہ کشیدگی پر پاکستان یا طالبان کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

یہ بحث مستقبل میں کیا رخ اختیار کر سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ڈیورنڈ لائن کے تنازع کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

امیر عبدالرحمٰن اور ڈیورنڈ

امیر عبدالرحمٰن 1880 میں افغانستان کے فرماں روا بنے تو انہیں اس عہد کی بڑی سلطنت روس کی جانب سے خطرات لاحق تھے۔

اس سے قبل 1878 سے 1880 کے دوران افغانستان اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں امیر عبدالرحمٰن کے چچا شیر علی نے روس کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس کوشش میں ناکامی کے بعد شیر علی نے اقتدار اپنے بیٹے یعقوب کے حوالے کر دیا تھا۔ یعقوب نے برطانیہ کو پورے ملک پر قابض ہونے سے روکنے کے لیے 1879 میں معاہدۂ گندمک پر دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے میں افغانستان کے خارجہ امور پر برطانیہ کا مکمل اختیار تسلیم کرلیا گیا تھا۔

افغانستان میں اس معاہدے کی شدید مخالفت ہوئی جس کے نتیجے میں محمد یعقوب کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور امیر عبدالرحمٰن افغانستان کے حکمران بن گئے۔

پاکستان سرحد پر باڑ لگانے کے حق کا دفاع کرتا ہے اور اس پر افغانستان کے اعتراضات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
پاکستان سرحد پر باڑ لگانے کے حق کا دفاع کرتا ہے اور اس پر افغانستان کے اعتراضات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

افغانستان کی مختصر تاریخ مرتب کرنے والی امینڈا رورابیک کی کتاب 'افغانستان اِن نٹ شیل' کے مطابق افغانستان میں تقسیم اور انتشار کو روس اپنے لیے سازگار تصور کرتا تھا۔

چناں چہ ملک کے داخلی حالات پر قابو پانے کے لیے درکار وسائل اور ہتھیاروں کے لیے امیر عبدالرحمٰن کا انحصار برطانیہ پر تھا۔

مؤرخین کے مطابق برطانیہ افغانستان کی صورت میں خطے میں اپنے حریف روس کے خلاف ایک مضبوط 'بفرزون' (ایک ایسا علاقہ جو دو حریف قوتوں یا ملکوں کے درمیان فاصلہ رکھ سکے) قائم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس سے قبل برطانیہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں کا تعین بھی کرنا چاہتا تھا۔

برطانیہ نے سرحدوں کے تعین کے بدلے امیر عبدالرحمٰن کو سالانہ امدادی رقم میں اضافے کی پیش کش کی۔ عبدالرحمٰن کے لیے اس وقت کے حالات میں یہ پیش کش ٹھکرانا ممکن نہیں تھا۔

برطانوی دور میں ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ ڈیورنڈ مورٹیمر اور امیر عبدالرحمٰن کے درمیان 12 نومبر 1893 کو کابل میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی جس نے دونوں جانب بسنے والے کئی پشتون آبادیوں کو تقسیم کر دیا۔

مؤرخ لڈونگ ڈبلیو ایڈمیک نے 'ہسٹوریکل ڈکشنری آف افغانستان' میں لکھا ہے کہ ڈیورنڈ لائن بناتے ہوئے اس علاقے کی آبادی سے متعلق لسانی اور نسلی حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا اس خطے میں آباد پشتون قبائل کی مخالفت کی وجہ سے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم نہیں کیا جا سکا۔

امیر عبدالرحمٰن کے انتقال کے بعد آنے والے افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کو برطانیہ کے ساتھ ان کا ذاتی معاہدہ قرار دے کر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

'پاک افغان سرحد سے باڑ ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:03 0:00

قیامِ پاکستان اور ڈیورنڈ لائن

جب برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا اور یہاں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو الگ الگ ریاستیں قائم ہونا طے پایا تو ڈیورنڈ لائن کے تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا۔

افغانستان کا اعتراض یہ تھا کہ جب اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) میں رائے شماری کرائی گئی تو ڈیورنڈ لائن میں ہندوستان کی جانب رہنے والے پشتونوں کو صرف بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا اور افغانستان کا آپشن شامل نہیں کیا گیا۔

افغانستان کی حکومت نے 1947 میں یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ اس علاقے میں 'پشتونستان' قائم کر کے اسے افغانستان یا پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کا اختیار دیا جائے۔

اسی بنیاد پر افغانستان نے قیامِ پاکستان کے بعد اقوامِ متحدہ میں اس کی شمولیت کی مخالفت کی اور بعد ازاں 1979 میں اس وقت کی افغان پارلیمنٹ نے بھی ڈیورنڈ معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔

لڈونگ ڈبلیو ایڈمیک کے مطابق قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک ڈیورنڈ لائن اور پشتونستان کے قیام کا معاملہ دونوں ممالک کے درمیان وجۂ نزاع ہے۔ مؤرخ لڈونگ ایڈمیک کہتے ہیں کہ اسی تنازع کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔

ڈیورنڈ لائن پر افغان حکومتوں کا مؤقف

قیامِ پاکستان کے بعد سے افغانستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ افغانستان کی کسی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا لیکن ساتھ ہی کبھی اس معاملے کو رسمی طور پر پاکستان کے سامنے اٹھایا بھی نہیں۔

حال ہی میں طالبان اہلکاروں کی جانب سے سرحد پر لگائی گئی باڑ ہٹانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
حال ہی میں طالبان اہلکاروں کی جانب سے سرحد پر لگائی گئی باڑ ہٹانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے پروگرام 'ویو 360' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قائم ہونے والی حکومتیں ڈیورنڈ لائن کو عملاً (ڈی فیکٹو) سرحد تسلیم کرتی آئی ہیں لیکن اسے اعلانیہ تسلیم نہیں کرسکتیں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان نے ’افغانستان اور پاکستان: تصادم، انتہا پسندی اور عہدِ جدید سے مزاحمت‘‘ میں لکھا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ افغانستان کے لیے اس قدر حساس ہے کہ افغانستان پر چھ سال تک جاری رہنے والے جینیوا مذاکرات میں آخری حل طلب معاملہ روسی افواج کا اںخلا نہیں بلکہ بین الاقوامی سرحد سے متعلق معاہدے کا متن تھا جسے حل کرنے کے لیے روسی وزیرِ خارجہ کو کابل آنا پڑا تھا۔

طالبان کا مؤقف کیا رہا؟

پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ لیفٹننٹ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر 1970 کی دہائی سے افغانستان میں بدلتی صورتِ حال کا ایک اہم کردار تھے۔ انہوں نے 1970 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو منظم کرنے سے لے کر 1990 کی دہائی میں طالبان کو بطورِ گروہ منظم کرنے تک بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ مقامی و عالمی میڈیا میں انہیں 'فادر آف طالبان' بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن اس کے باوجود ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر نصیر اللہ بابر کو بھی طالبان قیادت کی جانب سے مبینہ طور پر دو ٹوک اور سخت جواب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندر یار ولی نے چند برس قبل ریڈیو ’مشال‘ کو ایک انٹریو میں یہ بتایا تھا کہ جب صدر جنرل پرویز مشرف نے انھیں اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کو یہ پیغام دینے کے لیے کہا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرلیں تو اسفند یار ولی نے انہیں ایک واقعہ سنایا۔

اسفندر یار ولی کے بقول میں نے مشرف کو بتایا کہ نصیر اللہ بابر نے انہیں بتایا تھا کہ انہوں نے ایک بار طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر سے ان کے حجرے یا مہمان خانے میں کھانے کے دوران یہ کہا کہ آپ ڈیورنڈ لائن تسلیم کرلیں جس پر ملا عمر طیش میں آگئے اور پشتون روایات کے برخلاف انہیں کھانا چھوڑ کے حجرے سے نکل جانے کا کہا۔

اسفندر یار ولی کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر مشرف کو جواب دیا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنا کسی پشتون کے لیے ممکن نہیں ہے۔

مؤرخ لڈونگ ایڈمیک نے بھی افغانستان میں طالبان کے پہلے دورِ حکومت کے بارے میں لکھا ہے کہ اگرچہ طالبان پاکستان کی مدد پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی کبھی پاکستان کو ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

افغانستان میں طالبان کی بطور گروہ ابھرتی ہوئی طاقت پر ابتدائی کتابوں میں سے ایک 'طالبان: ملیٹینٹ اسلام، آئل اینڈ فنڈامینٹلزم اِن سینٹرل ایشیا' میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد رشید نے لکھا ہے کہ پاکستان کی فوج کا یہ خیال تھا کہ وہ طالبان کی حمایت کریں گے تو بدلے میں طالبان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرلیں گے اور صوبۂ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں پختون قوم پرستوں کا اثر ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

احمد رشید کے مطابق نتائج اس کے برعکس برآمد ہوئے۔ طالبان نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اسلامی تشخص کے ساتھ پشتون قوم پرستی کی سرپرستی بھی کی جس نے پاکستان میں پشتون قوم پرستوں کو بھی متاثر کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے افغانستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے افغانستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

کیا طالبان کا مؤقف بدل رہا ہے؟

طالبان اہلکاروں کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کی جانب سے سرحد پر لگائی گئی باڑ ہٹانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کی رپورٹ کے مطابق اطلاعات ہیں کہ طالبان کی حکومت میں شامل بعض اعلیٰ حکام ڈیورنڈ لائن کو نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان مستقل سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کی پالیسی پر بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

حارث اکاخیل نامی ایک افغان صحافی نے سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کی تھیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ مبینہ طور پر طالبان اہلکار سرحد پر کنڑ کے علاقے گوشہ میں کئی میٹر خاردار باڑ اکھاڑ کر گاڑی میں ڈال کر لے گئے ہیں۔ جب کہ انہوں نے پاکستان کی حدود میں واقع ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ میں موجود پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو چوکی ہٹا کر اپنے ملک منتقل کرنے کی بھی دھمکی دی۔

افغانستان کے سرحدی علاقے کنڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی سید رحمٰن صافی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ طالبان کی جانب سے باڑ ہٹانے کی کارروائیاں صرف گوشہ نامی علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں چترال سے لے کر بلوچستان میں اسپن بولدک تک جاری ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان یہ تمام علاقے وہی ہیں جہاں ڈیورنڈ لائن دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طالبان حکومت کی وزارتِ دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے بیان دیا ہے کہ اتوار کو طالبان نے مشرقی صوبے ننگر ہار کے ساتھ پاکستان کی فوج کو "غیر قانونی" باڑ لگانے سے روک دیا ہے۔

البتہ ترجمان نے باڑ ہٹانے کے حالیہ واقعات پر واضح مؤقف دینے سے گریز کیا۔ پاکستان کی جانب سے بھی اس معاملے پر کوئی سرکاری مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

باڑ ہٹانے کے واقعات پر پاکستان کی جانب سے کوئی سرکاری مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
باڑ ہٹانے کے واقعات پر پاکستان کی جانب سے کوئی سرکاری مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

لیکن مبصرین کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھی ڈیورنڈ لائن کا معاملہ برقرار ہے اور مستقبل میں بھی اس کے تبدیل ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔

سرحد پر باڑ کا تنازع کیا ہے؟

ڈیورنڈ لائن سے متعلق اسی مؤقف کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کی جانب سے باڑ کی تنصیب کی بھی مخالفت پائی جاتی ہے اور اسی کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین ماضی میں بھی سرحدی انتظام پر تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور سفیر ریاض محمد خان لکھتے ہیں کہ 2006 میں افغانستان میں حامد کرزئی حکومت نے پاکستان میں موجود طالبان اور القاعدہ کی قیادت کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر زور دینا شروع کردیا تھا۔

انہوں نےاپنی کتاب ’افغانستان اور پاکستان: تصادم، انتہا پسندی اور عہدِ جدید سے مزاحمت‘‘ میں لکھا ہے کہ کابل کے الزامات کے ردعمل میں پاکستان نے کچھ اقدامات تجویز کیے جن میں دیگر تجاویز کے ساتھ سرحد سے ملحق تقریباً تین کلومیٹر کا علاقہ ’نو گو ایریا‘ قرار دینے اور مختلف حصوں میں باڑ اور جہاں ضروری ہو وہاں بارودی سرنگیں بچھانے کی تجویز شامل تھی۔

سابق سیکریٹری خارجہ لکھتے ہیں کہ حامد کرزئی نے دیگر تجاویز کے ساتھ باڑ لگانے کی تجویز کو بھی مسترد کردیا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان کی تجویز سے ڈیورنڈ لائن سے متعلق افغان حساسیت عود کر آئی تھی۔

’طالبان ہوں یا کوئی اور باڑ ، سبھی باڑ کے خلاف ہیں‘

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے افغانستان میں طالبان ہوں یا کوئی اور حکومت، وہ باڑ لگانے کے خلاف ہیں اور دونوں جانب کے لوگوں کو اس سے نقصان پہنچا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ برطانوی ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ 1920 میں جو معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق سرحد کی دونوں جانب پانچ پانچ میل رہنے والے لوگوں سے کوئی سفری دستاویزات طلب نہیں کی جائیں گی اور ان کو سرحد پار آمد و رفت کی اجازت ہوگی۔

ان کے مطابق برطانیہ سے آزادی کے بعد اس کی جگہ لینے والی ریاستِ پاکستان بھی اس معاہدے پر عمل درآمد کی پابند ہے۔

پاکستان افغانستان سرحد پر خاردار باڑ کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:23 0:00

رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ دہشت گردوں کی در اندازی روکنے کے لیے کیا گیا تھا لیکن وہ کسی بھی بھیس میں اب بھی آسکتے ہیں۔ لیکن عام لوگوں کو اس لیے باڑ کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن دراصل ان علاقوں میں بسنے والے قبائل کو تقسیم کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی خاندان تقسیم ہوئے اس لیے اس پر دونوں جانب سے ردِ عمل سامنے آیا۔

رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جب سرحد پر باڑ لگانا شروع کی تو اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی تھی اور وہاں کوئی مضبوط حکومت قائم نہیں تھی جس کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا۔

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سرحد پر باڑ کے خلاف عوامی سطح پر ردِ عمل پایا جاتا ہے اور وہاں قائم ہونے والی کوئی بھی مضبوط حکومت یہ معاملہ پاکستان کے ساتھ اٹھائے گی۔

پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان نے بھی 2011 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ اگرچہ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن افغانستان میں امریکہ اور اتحادی فوج کے دور میں جو سرحدی تصادم ہوئے ان کی وجہ سے اس سرحد کی عملی حیثیت اجاگر ہوئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ستمبر 2008 میں ہونے والا جالا خیل واقعہ اور بعد ازاں نومبر 2011 میں ہونے والے سلالہ چوکی پر نیٹو افواج کے حملے کے بعد امریکہ اور ایساف افواج نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا کہ سرحد کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

انہوں ںے لکھا ہے کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن کو متنازع مسئلے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا اور اس مسئلے کے وجود ہی سے انکار کرتا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کا خیال ہے اس پنڈورا باکس کو کھولنے سے اس معاملے پر مزید ابہام پیدا ہوگا۔

ساتھ ہی وہ تجویز کرتے ہیں:’’پاکستان کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ تاریخی اور زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے افغانستان کے لیے ڈیورڈ لائن کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا انتہائی دشوار ہے۔ دوسری طرف افغانوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ دونوں ممالک کی عمل داری کے تعین کے لیے سرحد ہونا ضروری امر ہے اور موجودہ حالات میں ڈیورنڈ لائن کے علاوہ کوئی سرحد نہیں ہوسکتی۔‘‘

XS
SM
MD
LG