رسائی کے لنکس

پاک افغان سرحدی گزرگاہوں پر چین جدید استقبالی مراکز تعمیر کرے گا


ٹرک ڈرائیور طورخم بارڈر کراسنگ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
ٹرک ڈرائیور طورخم بارڈر کراسنگ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہوں پر جدید استقبالیہ مراکز، پینے کے پانی اور کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

چین کے اس پراجیکٹ کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان روزانہ ہزاروں افراد کی آمد و رفت اور تجارتی قافلوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہے جس سے دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔

بیجنگ کے دونوں ملکوں کے ساتھ اچھے سفارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں اور وہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدہ رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، تاکہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کسی سیاسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے یہ دونوں ملک مل کر کام کر سکیں۔

اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف مشن زہو لی جیان نے وائس آف امریکہ کے ایاز گل کو ایک تفصیلی انٹرویو میں بتایا کہ کابل میں تین ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اعلیٰ سطحی مذاكرات میں سرحدی گزرگاہوں کو ترقی دینے کے پر وگرام پر اتفاق ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ان منصوبوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اور بالآخر اس کے نتیجے میں افغانستان میں امن اور ترقی لانے میں مدد ملے گی۔

لی جیان نے بتایا کہ بیجنگ نے 2017 کے آخر میں دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کی روک تھام، اسٹریٹیجک نوعیت کی بات چیت اور حقیقی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سہ ملکی مذاكرات کا آغاز کیا تھا۔

سرحدی گزرگاہوں پر جدید سہولتوں کی فراہمی کے اپنے منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے لی جیان نے بتایا کہ کولڈ اسٹویج کی سہولت دونوں ملکوں کے درمیان مصروف ترین بارڈر کراسنگ طورخم اور چمن میں فراہم کی جائے گی، جب کہ پانی کا منصوبہ شمالی وزیرستان کی گزرگاہ غلام خان خیل ٹرمینل میں لگایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں چھوٹے تاجر طورخم اور چمن کے راستے آتے جاتے ہیں۔ اگر ان مقامات پر کولڈ اسٹویج موجود ہوں تو وہ اپنے پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کا استعمال کر سکیں ہیں۔ اسی طرح سرحدی گزرگاہوں پر اگر بہتر استقبالی مراکز قائم ہوں اور وہاں پینے کے پانی کی سہولت بھی موجود ہو تو آنے جانے والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔

سرکاری اندازوں کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والے 90 فی صد پھلوں اور سبزیوں کا خریدار پاکستان ہے۔ اسلام آباد نے حال ہی میں افغانستان سے آنے والی سبزیوں اور پھلوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی ہے، جس سے ایک اندازے کے مطابق 2018 میں پاکستان کے لیے افغان تجارت میں 30 فی صد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔

عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہر روز لگ بھگ 60 ہزار افراد آتے جاتے ہیں۔

سیاسی تناؤ کی وجہ سے حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت میں نمایاں طور پر کمی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے دہشت گردوں کی آزادانہ آمد و رفت روکنے کے لیے یک طرفہ طور پر تقریباً 2600 کلومیٹر سرحد پر فولادی باڑ لگاتے ہوئے نگرانی سخت کر دی ہے۔

تجزیہ کاروں کی نظر میں چین کی پیش کش

تاہم ایک امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے منسلک عالمی امور کے ایک ماہر، کولن کوک مین کہتے ہیں کہ کچھ اسی طرح کے پراجیکٹ کا اعلان صدرکلنٹن کی حکومت کے وقت امریکہ نے بھی کیا تھا لیکن سیکورٹی اور کئی دوسری وجوہات کی وجہ سے اس پر کبھی عمل نہ ہو سکا۔ وہ کہتے ہیں کہ چین یہ سرمایہ کاری، افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کے جواب میں کر رہا ہے۔

کولن کوک مین، چین کے اس پراجیکٹ کو، چین کا دنیا میں اثر و رسوخ بڑھانے کے ’ان روڈ ون انیشیٹیو‘ کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کا اگلا قدم سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینا ہو گا تاکہ وہ ایران اور ترکمانستان سے ایک مختصر ترین راستے کے ذریعے خام تیل برآمد کر سکے ۔

افغانستان سے علاقائی امور کے ایک ماہر اور قبائلی امور کے سابق وفاقی وزیر غفور لیوال نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹر ویو میں چین کی جانب سے اس نئے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستانی اورافغان تاجر برادری کے علاوہ دونوں جانب رہنے والوں کو فائدہ ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ واہ خان اور پامیر جیسے علاقوں میں ان کے بقول افغانستان کی تاریخ میں خدمت انسانی کا یہ پہلا موقعہ ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پراجیکٹ چین کا دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے ’ ون روڈ ون انیشیٹیو‘ کا حصہ ہے بھی، تو افغان حکومت اور عوام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ چین کا افغانستان میں کردار ہمیشہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی رہا ہے اور یہ کہ چین کے ہر قدم کو افغانستان میں مثبت نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

پاکستان سے سینئر صحافی اور تجزیہ کار، سجاد میر کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر چین کی مدد سے بننے والی ان سہولتوں سے تاجر برادری خاص طور پر مستفید ہو گی جن کو پاک افغان تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے بعض اوقات اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن سیکورٹی کے مسائل کی وجہ سے اس پراجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں وقت لگ سکتا ہے۔

یہ ابھی واضح نہیں کہ چین کی مدد سے بنائی جانے والی یہ سہولتیں سرحد کے کس جانب بنائی جائیں گی اور کس کے کے زیر انتظام ہوں گی۔

XS
SM
MD
LG