رسائی کے لنکس

دنیا کی سب سے بڑی معیشت ڈیفالٹ میں کیسے جا سکتی ہے؟


کانگریس کی عمارت (فائیل فوٹو)
کانگریس کی عمارت (فائیل فوٹو)

امریکی سینٹ کے رہنماؤں نے حکومت کے قرض لینے کے اختیار کو دسمبر کے اوائل تک بڑھانے پر اتفاق کر لیا ہے تاکہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا جا سکے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ اور امریکہ جیسا ملک جس کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط معیشت سمجھی جاتی ہے وہ کیسے ڈیفالٹ ہو سکتا ہے؟

اس سے کیا مراد ہے اور اس وقت امریکی معیشت کی کیا صورت حال ہے، اس متعلق ماہرین کی آرا پیش کی جاتی ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ جب حکومت کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور آمدن کم ہوتی ہے تو اسے مختلف ذرائع سے قرضے لینے پڑتے ہیں، تاکہ کاروبار مملکت چلتا رہے۔

امریکہ میں گزشتہ کئی عشروں سے یہ ہو رہا ہے کہ اخراجات تو بڑھ رہے ہیں، لیکن ٹیکس کی آمدنی میں مختلف نوعیت کے کنٹرول اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا، جس کے نتیجے میں آمدن اور اخراجات میں فرق بڑھتا جا جا رہا ہے. اس فرق کو پُر کرنے کے لئے حکومت بنکوں اور دیگر ذرائع سے قرض حاصل کرتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ عام طریقہ کار کے مطابق اس کے لئے ایک حد اور مدت مقرر کردی جاتی ہے کہ حکومت کہاں تک جا سکتی ہے اور جب وہ حد اور وقت گزر جاتا ہے تو اس میں توسیع کےلئے قانون سازوں سے اجازت لینی پڑتی ہے۔

اس مرحلے پر اس معاملے میں سیاست کا عمل دخل شروع ہو جاتا ہے۔ جو پارٹی اپوزیشن میں ہوتی وہ کوشش کرتی ہے کہ اختیار میں توسیع نہ ہو۔ اور جو حکومت میں ہوتی ہے وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے اختیار میں توسیع چاہتی ہے۔ اور یوں ایک سیاسی کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر زبیر اقبال عالمی بنک کے ایک سابق عہدیدار اور معاشیات کے ماہر ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قرضے ایک اوپن سسٹم سے لئے جاتے ہیں، جس کے تحت جو گورنمنٹ پیپر یا سرکاری بانڈز ہوتے ہیں انہیں کوئی بھی خرید سکتا ہے۔

عام طور سےبنکنگ ایجنسیاں اپنے صارفین کو یہ بانڈز خریدنے پر آمادہ کرتی ہیں، جن میں بہت سے غیر ممالک بھی شامل ہوتے ہیں جن کے بجٹ سرپلس ہوتے ہیں۔ جو وہ ڈالر میں جمع کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ رقوم امریکی بنکوں ہی میں ہوتی ہیں اور وہ ان ڈالرز کو امریکی پیپرز یا بانڈز خریدنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ فنانسنگ صرف ملکی نہیں بلکہ یونیورسل بھی ہوتی ہے۔ امریکی حکومت یہ بانڈز مارکیٹ میں لاتی ہے اور بیچ کر قرض حاصل کرتی ہے۔

ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ اس طرح حکومت بالواسطہ دوسرے ملکوں کی مقروض ہوتی ہے۔ لیکن یہ قرضہ زیادہ تر امریکی اداروں کے توسط سے لیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ ممالک جن میں چین بھی شامل ہے براہ راست بھی یہ بانڈز خرید لیتے ہیں۔ چین تو اپنی پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔

اس وقت امریکی معیشت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی معیشت تو بہتر ہو رہی ہے لیکن بڑا چیلنج جو سامنے ہے وہ یہ ہے کہ گلوبل معیشت میں توقع کے بر خلاف ابھی سست روی کا رجحان ہے۔ اور نئے تخمینوں کے مطابق امریکہ اور چین سمیت بڑے ملکوں میں بھی پیداوار اتنی نہیں ہو گی جس کی تین مہینے پہلے توقع کی جارہی تھی۔

ڈاکٹر ظفر بخاری شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی میں معاشیات اور مارکٹنگ پڑھاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو ہزار بیس کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکی حکومت کے ریوینیوز ساڑھے تین کھرب کے قریب ہیں، جس میں سے ایک اعشاریہ تین کھرب پے رول ٹیکسوں سے آتے ہیں۔ لوگ جو انفرادی ٹیکس دیتے ہیں اس سے کوئی ایک اعشاریہ چھ کھرب ڈالر آتے ہیں اور بقیہ کارپورٹ ٹیکسوں اور دوسری مدوں سے آتے ہیں، جبکہ اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہوئے خاص طور سے کرونا اور اسکے اثرات کے سبب اس مالی سال میں بجٹ خسارہ کوئی تین کھرب ڈالر بنا۔

یعنی آمدن سے تین کھرب زیادہ خرچ ہوئے اسی طرح ماضی میں بھی ہونے والے بجٹ خساروں کے سبب یہ بجٹ خسارہ بڑھتا گیا۔

ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے ملکی بینکنگ نظام سے یا بانڈز فلوٹ کرکے حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے اور ایک مقررہ وقت پر وہ قرض یا اسکا سود حکومت ادا نہ کر پائے تو وہ ڈیفالٹ ہوجاتی ہے اور موڈیز جیسی کریڈٹ رینکنگ دینے والی کمپنیاں اسکی کریڈٹ ریٹنگ کم کرسکتی ہیں۔

اس کے بعد کسی کو بھی قرضے کے حصول میں دقّت ہو سکتی ہے۔ اور اس کا انحصار اس ملک یا فرد کو دی جانے والی ریٹنگ پر ہوتا ہے۔ اسلئے ضروری ہوتا ہے کہ کم از کم سود وقت پر ادا کردیا جائے۔

اس مرحلے پر سیاست شروع ہو جاتی ہے اور اپوزیشن کی پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ حکمراں پارٹی کو نیچا دکھانے کے لئے حکومت کے قرض لینے کے اختیار میں توسیع نہ ہونے دے یا اس پر سودے بازی کرکے اپنی شرائط منوائے۔

امریکی معیشت کی صورت حال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر بخاری نے کہا کہ کسی بھی معیشت کو اسوقت مستحکم معیشت کہا جاتا ہے جب اس کے تین سیکٹر یعنی سروسز سیکٹر، انڈسٹریل سیکٹر اور زرعی سیکٹر بہتر کام کر رہے ہوں اور امریکہ میں یہ تینوں سیکٹر نہ صرف فعال ہیں بلکہ ان میں مزید بڑھنے کی صلاحیت اور گنجائش بھی موجود ہے۔

لیکن،بقول ان کے،موجودہ حالات خاص طور سے کرونا کی وبا کے سبب عالمی معیشت کی سست روی، امریکی معشیت کے بڑھنے کی رفتار کو متاثر کر رہی ہے۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:04:39 0:00

XS
SM
MD
LG