رسائی کے لنکس

اقوامِ متحدہ میں آب و ہوا کی تبدیلی اور کرونا وبا کی صورتِ حال پر عالمی رہنما فکر مند


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا تقریر کر رہے ہیں۔ 23 ستمبر 2021
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا تقریر کر رہے ہیں۔ 23 ستمبر 2021

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں بدھ کے روز عالمی رہنماؤں کی تقریروں کا اہم موضوع آب و ہوا کی تبدیلی اور کرونا وائرس کے خطرے کا مقابلہ تھا۔

افریقی جزیرے مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجویلینا نے کہا کہ، " ایک ایسے وقت میں جب دنیا کوویڈ 19 کی وبا کے خلاف لڑ رہی ہے، آب و ہوا کا بحران بھی پوری طاقت سے حملہ آور ہو گیا ہے۔"

آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں کئی برسوں سے جاری خشک سالی نے مڈغاسکر کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس سال، ٹڈی دل اور لشکری سونڈھی نے فصلوں کا صفایا کر دیا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوب میں ایک لاکھ سے زائد افراد غذائی قلت کی جانب بڑھے ہیں جب کہ ہزاروں کو پہلے ہی سے قحط جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔

جنرل اسمبلی کے 76 ویں سیشن کے دوران مڈغاسکر کے صدر اینڈری نرینا راجویلینا نے 22 ستمبر 2021 کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، "اگر ہم نے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کی کوششیں نہ کیں تو یہ بحران نہ صرف جاری رہے گا بلکہ بدتر ہوتا جائے گا۔"

مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجویلینا جنرل اسمبلی میں تقریر کر رہے ہیں۔ 22 ستمبر 2021
مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجویلینا جنرل اسمبلی میں تقریر کر رہے ہیں۔ 22 ستمبر 2021

ان کا کہنا تھا کہ مڈغاسکر ہر ریاست سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آلودگی پر کنٹرول کے لیے مساوی طور پر کام کرے۔

تقریباً چھ ہفتوں کے بعد دنیا بھر کے ممالک آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق 2015 کے پیرس معاہدے پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ملاقات کریں گے۔

اب تک کے تمام اشاریے اس جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت کو صنعتی دور سے قبل کے درجہ حرارت سے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رکھنے کی جانب زیادہ کوششیں نہیں کی گئیں۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اس ہفتے اپنی مصروفیات کا زیادہ تر وقت گلوبل وارمنگ پر کنٹرول سے متعلق اہداف تک پہنچنے کی کوششوں پر مرکوز رکھا۔

جانسن نے پیر کو اپنی ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ امیر ممالک نے ترقی سے فائدہ اٹھایا ہے جس کے نتیجے میں آلودگی پیدا ہوئی ہے، اور اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشت کو ماحول دوست اور پائیدار طریقے سے آگے بڑھانے میں مدد دیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی منگل کے روز اپنی گفتگو میں اس پر زور دیا۔

کرونا وائرس سے مقابلہ

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں دنیا بھر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے سربراہان شرکت نہیں کر سکے تھے۔ اس سال تقریباً 100 سربراہان نیویارک میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں شریک ہیں، جب کہ باقی ماندہ ممالک کے قائدین ویڈیو لنک یا ریکارڈنگ کے ذریعے اجلاس میں حصہ لے رہے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سےخطاب کے بعد واشنگٹن واپس چلے گئے جہاں انہوں نے بدھ کے روز کرونا وائرس پر کنٹرول سے متعلق ایک ورچوئل کانفرنس کی میزبانی کی۔

اس موقع پر انہوں نے کہا، "ہم اس بحران کو تھوڑے بہت اقدامات یا درمیانی راستے کے انتخاب سے حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومتوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی کے قائدین اور مخیر حضرات کے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنگین بحران ہے۔

صدر بائیڈن ورچوئل کانفرنس میں خطاب کر رہے ہیں۔ 22 ستمبر 2021
صدر بائیڈن ورچوئل کانفرنس میں خطاب کر رہے ہیں۔ 22 ستمبر 2021

انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ، جو پہلے ہی ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی 600 ملین خوراکیں دے چکا ہے، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے فائزر ویکسین کی مزید 50 کروڑ خوراکیں خرید رہا ہے، جس کی جنوری 2022 میں ترسیل شروع کر دی جائے گی۔

حل طلب مسائل

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران کئی حل طلب سیاسی مسائل بھی عالمی سربراہان کی تقاریر کا موضوع بنے۔

اپنے ویڈیو خطاب میں اردن کے شاہ عبداللہ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کی ضرورت کا ایک بار پھر اعادہ کیا، جب کہ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے ایران کو اس کی ایٹمی سرگرمیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

شاہ سلمان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ 22 ستمبر 2021
شاہ سلمان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ 22 ستمبر 2021

شاہ سلمان نے کہا کہ ہم بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، "ہم ایرانی اقدامات پر بہت فکر مند ہیں جو اس کے وعدوں کے برعکس ہیں اور دوسری طرف ایران کی جانب سے روزانہ ہی یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے۔"

ادھر، ​G-20 کے وزرائے خارجہ نے بدھ کو افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔

XS
SM
MD
LG