ملک عمید/نخبت ملک
’’بس تین منٹ میں آجائے گا،‘‘ کسٹم اینڈ بارڈر کنٹرول والوں نے کہا۔ ’’مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، میرا بھائی پہلے ہی پوچھ رہا تھا کہ کچھ ایسا نہ ہو۔ تھوڑا ڈر بھی رہا تھا۔ میں نے کہا تم نے نہ کوئی جرم کیا ہے اور نہ اور کچھ تو یہ لوگ کیوں تمہیں کچھ کہیں گے۔‘‘
یہ کہنا تھا شہلا شاہنواز کا جن کے بھائی محمد سرفراز حسین کو 3 جولائی کو امریکی بارڈر کنڑول فورس نے ہیوسٹن کے ہابی ائیرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ وہ تب سے اپنے بھائی کی رہائی کے لئے مہم چلا رہی ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے شہلا نے بتایا کہ وہ اور ان کے بھائی میکسیکو کے ایک مختصر سفر سے واپس آ رہے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔
شہلا شاہنواز نے بتایا کہ ان کے خاندان کے بیشتر افراد 70 کی دہائی سے امریکہ آباد ہیں اور وہ 2010 میں امریکہ آئیں اور اب امریکی شہری ہیں۔ ان کا بھائی جو بحرین میں پیدا ہوا اور 2013 کے شورش زدہ زمانے میں جب بحرین میں حکومت کے خلاف احتجاج چل رہا تھا امریکہ سٹوڈنٹ ویزا پر آئے۔
شہلا ہوسٹن میں رائس یونیورسٹی کے پاس ایک سفید فام علاقے اپر کربی میں رہ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے انہیں یا ان کی فیملی میں سے کسی کو بھی کبھی ایسے واقعے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
شہلا شاہنواز نے بتایا کہ ان کا بھائی کمپیوٹر سائنس کا طالب علم ہے اور اس کے سٹوڈنٹ ویزے کی میعاد 8 جولائی کو ختم ہو رہی تھی۔ انہیں ان کے وکیل نے مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی اور ملک میں جا کر امریکہ واپس آجائیں تو ان کے ویزہ کی تجدید ہو جائے گی۔
شہلا نے بتایا کہ ان کی ملازمت کے سلسلے میں کچھ مشکلات کے باعث، ان کے بھائی کا ایک کالج سمسٹر مس ہو گیا تھا۔ ایسے میں بارڈر سیکیورٹی کا یہ اعتراض اٹھا کہ ان کا بھائی پانچ ماہ سے امریکہ میں کیا کرتا رہا۔
شہلا کے مطابق، ان کے بھائی کے سٹوڈنٹ ویزہ کی معیاد آٹھ جولائی کو ختم ہو رہی تھی جس پر حکام کو نیا سٹوڈنٹ ویزہ پیش کیا گیا، تاکہ اس کی تجدید ہو سکے۔
شہلا شاہنواز نے دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی کو، بقول اُن کے، ’’دباؤ میں لایا گیا ہے اور زبردستی ایک ایسی دستاویز پر دستخط لئے گئے، ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا بھائی امریکہ میں غیر قانونی ملازمت کر رہا تھا‘‘۔
’’ایک بار آپ ان پیپرز کو سائن کر دیں تو پھر آپ کے پاس کوئی حق نہیں رہ جاتا اٹارنی کا، یا کسی بھی چیز کا حق۔ جب آپ ڈیپورٹیشن پراسیس میں ہوتے ہیں تو آپ کے تمام حق سلب کر لئے جاتے ہیں۔‘‘
شہلا نے مزید کہا کہ میکسیکو کے تارکین وطن کا معاملہ ان کے نزدیک ایک الگ سیاسی معاملہ ہے اور ان کے خاندان کو اس کے ساتھ جوڑے جانے پر انہیں حیرت ہے۔
بقول اُن کے، ’’ہم لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ صرف ہسپانوی لوگوں کا مسئلہ ہے، ان کی کمیونٹی میں یہ ہو رہا ہے اور صرف ہسپانوی ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ اگلی ہماری باری ہے۔ یہ لوگ ہمیں پکڑ کر لے جا رہے ہیں۔‘‘
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے شہلا اپنے بھائی کے کیس کے بارے میں مایوس تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ ایک ایسی مہم چلا رہی ہیں جس کے ذریعے وہ لوگوں کو ’زیرو ٹالرینس‘ کی پالیسی کے بارے میں شعور دے سکیں۔ ’’آپ کو پتہ ہے کہ پاکستانی کمیونٹی میں تو بولا جاتا ہے کہ جو بھی آفیسر بولے اس کی مانو، جو بھی بولے سچ سچ بول دو۔ ہم لوگوں کو ڈرنا نہیں چاہئے۔ ہمارے پاس یہ حق تھا بولنے کے لئے کہ وکیل سے بات کرو یا ہم لوگ جواب نہیں دیں گے ان سوالوں کا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ان کا اصل مقصد کمیونٹی میں یہ شعور دینا ہے کہ اگر کوئی امریکہ سے باہر جاتا ہے یا پاکستان سے آ رہا ہے۔ ابھی کوئی رعایت نہیں ہے۔ ’زیرو ٹالرینس پالیسی‘ میں یہ لوگ چل رہے ہیں۔ اور جو لوگ نسلی تعصب رکھتے ہیں ان کے کندھے پر تھپکی مل گئی ہے کہ انہیں جو بھی کرنا ہے وہ کھلے عام کر لیں۔ آپ کو کوئی نہیں روکنے والا۔‘‘
صدر ٹرمپ کی ’زیرو ٹالرینس‘ یا کوئی رعایت نہ برتنے کی پالیسی کے تحت امریکی حکومت نے ان تمام تارکین وطن کو سزائیں دینے کا عمل شروع کیا ہے جو ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہوئے پکڑے جائیں۔
حال ہی میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کے سفری پابندیوں سے متعلق صدارتی حکم نامے کے حق میں فیصلہ دیا تھا جس میں انہوں نے آٹھ ممالک کے باشندوں پر امریکہ داخلے پر عارضی سفری پابندیاں لگائی تھیں۔