منشیات امریکہ اسمگل کرنے کی کوشش کرنے والے ایک پاکستانی شہری نے امریکہ کی ایک عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔
امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق شہباز خان نامی ملزم نے یہ اعترافِ جرم استغاثہ کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں کیا ہے۔
شہباز خان کو افریقی ملک لائبیریا کے حکام نے یکم دسمبر 2016ء کو حراست میں لیا تھا اور اسی دن انہیں امریکہ کی درخواست پر امریکی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا۔
ملزم کے خلاف نیویارک کے علاقے مین ہیٹن کی وفاقی عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت تھا جہاں اس نے جمعرات کو ڈسٹرکٹ جج لورنا جی شوفیلڈ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق 70 سالہ شہباز خان نے عدالت کے سامنے ایک کلو یا اس سے زیادہ ہیروئن امریکہ اسمگل کرنے کی کوشش کرنے اور اسے یہ جانتے بوجھتے بھی تقسیم کرنے کے الزامات کا اعتراف کرلیا ہے کہ اس ہیروئن کو امریکہ درآمد کیا جانا تھا۔
ملزم کی جانب سے اعترافِ جرم کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل ہوگئی ہے اور جج شوفیلڈ نے سزا سنانے کے لیے 9 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
استغاثہ کے مطابق جرائم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ملزم کو زیادہ سے زیادہ عمر قید اورکم سے کم 10 سال لازمی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
محکمۂ انصاف کی جانب سے جاری بیان میں نیویارک کے جنوبی ضلعے کے وکیلِ استغاثہ جوفری ایس برمن نے کہا ہے کہ شہباز خان نے بھیس بدل کر خود سے ملنے والے ایک امریکی افسر کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دنیا میں کہیں بھی منشیات اسمگل کرسکتا ہے اور اسے کوئی نہیں پکڑ سکتا۔
استغاثہ کے مطابق شہباز خان پاکستان اور افغانستان میں ہیروئن کی اسمگلنگ میں ملوث ایک بڑا اور منظم نیٹ ورک چلا رہا تھا۔
معاملے کی تحقیقات کرنے والے حکام کے مطابق ملزم اگست سے اکتوبر 2016ء کے دوران بحری جہازوں کے ذریعے بھیجے جانے والے کنٹینرز میں ہزاروں کلوگرام ہیروئن چھپا کر امریکہ اسمگل کرنے پر آمادہ تھا جسے نہ صرف نیویارک بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں فروخت کیا جاتا اور لوگوں کو اس کا عادی بنایا جانا تھا۔
حکام کے مطابق اس مقصد کے لیے ملزم نے اگست 2016ء میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں میں بعض ایسے افراد سے ٹیلی فون پر رابطے اور بالمشافہ ملاقاتیں کیں جو اس کے خیال میں اسمگلر تھے۔
لیکن درحقیقت یہ تمام افراد امریکہ میں منشیات کی روک تھام کے ادارے 'ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی' (ڈی ای اے) کی ہدایات پر کام کر رہے تھے اور ان میں ایجنسی کا ایک افسر بھی شامل تھا۔