گرینڈ تھیفٹ آٹو (جی ٹی اے) کے نام سے مشہور ترین آن لائن ویڈیو گیم اب ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز مظاہرین اور چین کے قومیت پسندوں کے درمیان نظریاتی جنگ کا محاذ بن گیا ہے۔ ہانگ کانگ کے مظاہرے اب ویڈیو گیمز کی دنیا میں بھی ہونے لگے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پیر کی رات چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گیمرز کی جانب سے کچھ ویڈیوز پوسٹ کی گئیں۔ ان ویڈیوز میں ہانگ کے جمہوریت نواز مظاہرین اور چینی پولیس کے درمیان جھڑپیں دکھائی گئی تھیں۔
لیکن دلچسپ بات یہ کہ یہ جھڑپیں ایک ویڈیو گیم 'جی ٹی اے' میں ہوئی تھیں۔
جی ٹی اے ایک آن لائن گیم ہے جو پوری دنیا میں کہیں بھی کھیلا جا سکتا ہے۔ اس گیم میں امریکہ کا ایک فرضی شہر دکھایا گیا ہے جہاں گیم کھیلنے والے گھوم پھر سکتے ہیں اور گلیوں میں لڑائیاں بھی کر سکتے ہیں۔
اس گیم کی رواں ماہ آنے والی اپ ڈیٹس میں ہانگ کانگ کے گیمرز نے نوٹ کیا کہ وہ اب اس گیم کے کردار کو ہانگ کانگ کے مظاہرین کا مخصوص لباس پہنا کر مظاہرین کے روپ میں ڈھال سکتے ہیں۔
چناچہ گیمرز نے گیم کھیلتے ہوئے کردار کو سیاہ لباس پہنائے، گیس ماسک اور پیلے ہیلمٹ پہنا کر جی ٹی اے کہ سڑکوں پر پیٹرول بم پھینکنا شروع کر دیے۔ سب وے اسٹیشنز تور دیے گئے اور پولیس پر حملے بھی کیے گئے۔
چین کے گیمرز کو جب ان کارروائیوں کا علم ہوا تو وہہ بھی پیچھے نہ رہے۔ انہوں نے اپنے کرداروں کو پولیس کے کپڑے پہنائے اور مظاہرین کے مقابلے پر لے آئے۔
چین کی ٹوئٹر کی طرح کی ایک مقامی سوشل میڈیا سائٹ 'ویبو' پر پیر کو گیمرز نے ان جھڑپوں کی کچھ ویڈیوز پوسٹ کیں اور اس پر لکھا کہ "کھلاڑیوں نے لال بیگوں کو ذبح کر دیا۔"
خیال رہے کہ ہانگ کانگ کی پولیس اور حکومت کے حامی افراد جمہوریت نواز مظاہرین کے لیے "لال بیگ" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
یہ ویڈیوز اب تک لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔
ویڈیوز پر کئی افراد نے تبصرے بھی کیے ہیں جن میں سے ایک شخص نے لکھا کہ "ہماری عزت کو پامال نہیں کیا جاسکتا، ایک چینی کھلاڑی کے طور پر ہم ضرور لڑیں گے۔"
خیال رہے کہ ہانگ کانگ میں گزشتہ چھ ماہ سے مظاہرے جاری ہیں اور اکثر یہ مظاہرے پر تشدد رخ اختیار کر جاتے ہیں۔
یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے تھے جب ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے ایک بل منظوری کے لیے پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ہانگ کانگ میں پکڑے جانے والے ملزموں کو مقدمہ چلانے کے لیے چین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ انتظامیہ اس بل سے دستبردار ہو گئی تھی لیکن مظاہرین نے مطالبات کی فہرست میں جمہوری اصلاحات کو بھی شامل کر لیا تھا۔ جس کے بعد سے ہانگ کانگ میں مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔