رسائی کے لنکس

کراچی کا ایک پارک جہاں ’تاریخی‘ خزانہ لوگوں کا منتظر ہے


اس میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل میوزیم کراچی کے پارک میں استادہ یہ مجسمے ایک انوکھا ’تاریخی‘ خزانہ ہے اور ان مجسموں کو تراش کر اس کے تخلیق کاروں نے شاید اپنا فن تمام کر دیا ہو؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مجسمے دن رات اپنے چاہنے والوں کے انتظار میں سولی پر لٹکے رہتے ہیں

آج ہم آپ کو کراچی کے ایک ایسے پارک کی سیر کراتے ہیں جس میں صدیوں پرانی تاریخ کے کچھ کردار بتوں کی صورت میں اپنے چاہنے والوں کے انتظار میں صبح سے شام تک اور پھر شام سے صبح تک کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

کہنے کو یہ نیشنل میوزیم آف پاکستان کراچی کے احاطے میں بنا ایک ’عوامی پارک‘ ہے، لیکن چونکہ سیکورٹی کے نام پر یہاں لوہے کے بڑے بڑے دروازوں پر کئی تالے پڑے ہیں، لہذا عام آدمی اندر جانے کا سوچے بھی تو کیوں کر؟

وائس آف امریکہ کے نمائندے نے میوزیم کے بہ اختیار حکام اور ترجمان سے ان بتوں کی تاریخ جاننے، ان بتوں کو یہاں نصب کرنے کا مقصد جاننے۔۔حتیٰ کہ جن تاریخی شخصیات کے یہ بت ہیں ان کے ناموں کی تصدیق بھی چاہی۔ لیکن، حکام بالا ایک دوسرے کے پاس بھیجتے رہے، وہ پروٹول کی سیاست میں ان بتوں کی مقصدیت بھی بیان نہ کرسکے۔

تاہم، تاریخی حوالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے دو مجسمے بدھ مت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس مت کے بانی گوتم بدھ اور دیگر اہم شخصیات کے ہوسکتے ہیں جبکہ ایک بت پر بنی مخصوص طرز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے یہ اجنتا الورا کی تاریخی غاروں سے لایا گیا ہو یا کم از کم اس پر اسی انداز سے چھوٹی چھوٹی مورتیاں تراشی گئی ہیں جیسی اجتنا اور الورا کی غاروں میں اب بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

’اجنتا ‘اور’ الورا‘ بھارتی سیاحت کی صدیوں پرانی شناخت ہے اور بھارت ان کی سیاحت سے ہر سال ایک بڑی آمدنی حاصل کرتا ہے۔ یہ غاریں یا ’گپائیں‘ دنیا بھر میں مشہور ہیں اور ہر سال لاکھوں غیر ملکی اور انگنت مقامی سیاح انہیں دیکھنے آتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل میوزیم کراچی کے پارک میں استادہ یہ مجسمے ایک انوکھا ’تاریخی‘ خزانہ ہے اور ان مجسموں کو تراش کر اس کے تخلیق کاروں نے شاید اپنا فن تمام کر دیا ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مجسمے دن رات اپنے چاہنے والوں کے انتظار میں سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔

بتوں پر دھول، مٹی کی موٹی موٹی پرتیں چڑھی ہیں۔ لیکن انہیں صاف کرنے والا، ان پر رنگ و روغن کرنے والا بھی کوئی نہیں حالانکہ جس پتھر سے انہیں تراشا گیا ہے اسے گیلے کپڑے سے بھی روزانہ صاف کیا جائے تو ان میں چمک پیدا ہوسکتی ہے۔۔۔لیکن ’فن کی ناقدری‘ نے انہیں ’دھول چٹا‘ دی ہے۔۔۔کاش کہ ان کی بھی زبان ہوتی اور یہ خود احتسابی کا مطالبہ کر سکتے۔

وڈیو رپورٹ کے لیے کلک کیجئیے:

کراچی کا ایک پارک ’تاریخی خزانہ‘ لیے لوگوں کا منتظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:08 0:00

XS
SM
MD
LG