کراچی میں پچھلے مہینے پڑنے والی ریکارڈ توڑ گرمی کا بنیادی سبب مختلف انسانی سرگرمیاں ہیں جن میں بغیر سوچے سمجھے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان سرگرمیوں میں فیکٹریوں و کارخانوں کی چمنیوں، کاروں و دیگر گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ بدقستمی سے اِن سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، سینیٹر مشاہد اللہ خان کے الفاظ میں، ’کراچی میں پچھلے مہینے 17 جون سے 24 جون تک پڑنے والی قیامت خیز گرمی نہ صرف مستقبل میں بھی پڑسکتی ہے، بلکہ اس کی شدت میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس بار تو درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ لیکن، ہوا کے دباوٴ اور نمی میں کمی کی وجہ سے یہ 66 سینٹی گریڈ محسوس ہوئی۔ لہذا، اندازہ لگا لیجئے کہ مستقبل میں اس کی شدت کس حد تک جا سکتی ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر 45 سینٹی گریڈ پر 1200 کے قریب اموات ہوسکتی ہیں تو درجہ حرارت میں اضافہ کیا قیامت ڈھائے گا، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وفاقی وزارت برائے ماحولیاتی تغیرات کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد سلیم نے وی او اے کو بتایا کہ وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان جون کے مہینے میں کراچی میں پڑھنے والی غیر معمولی گرمی کی وجوہات سے متعلق رپورٹ جاری کرنے کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
وفاقی وزیر کے بقول، ’عالمی حدت کے باعث پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں آنے والے سالوں کے دوران گرمی کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم، موثر احتیاتی تدابیر اور آگاہی مہم کے ذریعے جانوں کے ضیاع کو بڑی حد تک روکا جاسکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’شہروں میں مختلف انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی حدت دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں پر زیادہ حاوی ہوتی ہے۔ اس کے سبب بحیرہٴعرب سے آنے والے ہوا کے کم دباوٴ نے سمندری ہوا کو شہر میں داخل ہونے سے روکا۔ اس دباوٴ کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے ملحقہ علاقے خصوصاً کراچی بری طرح متاثر ہوئے جبکہ پانی اور بجلی کی عدم دستیابی کے باعث اموات میں مزید اضافہ ہوگیا۔‘
وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گرمی کی لہر سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں ’ہیٹ اور ہیلتھ الرٹ وارننگ سسٹم‘ بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’گرمی کے آغاز سے پہلے آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی جائے تاکہ بروقت گرمی سے بچنے کے اقدامات کیے جاسکیں۔ اسکول، کالجز میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے حوالے سے مضامین پڑھائے جائیں، سبزے میں اضافے کے لیے شجرکاری پر زور دیا جائے، گھروں، چھتوں اور سڑکوں پر سورج کی روشنی منعکس کرنے کے لیے سبز مٹیریل کا استعمال کیا جائے اور پارکوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، شہری منصوبہ بندی اور قوائد و ضوابط پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔‘
اس موقع پر رپورٹ پر کام کرنے والے ماہرین موسمیات سمیت سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان چودھری، ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات ڈاکٹر غلام رسول اور این ڈی ایم اے کے ترجمان احمد کمال نے بھی رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا اور ایسے واقعات کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے تجاویز اور مختلف اسباب پر تفصیلی گفتگو کی۔