رسائی کے لنکس

ٹائمزسکوئرمظاہرہ: امریکی مسلمانوں کےبارےمیں متوقع سماعتوں پر کڑی تنقید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خطاب کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ملک کی ایک اقلیت کو نشانہ بنانا امریکی اقدار کے خلاف ہے اور اس سے فائدے کے بجائے مزید نقصان کا اندیشہ ہے کیونکہ اس سے ملک کی مسلم آبادی میں بے گانگی کا احساس پیدا ہوگا

اتوار کو نیویارک کے ٹائمز سکوئر میں ایک مظاہرے میں کانگریس کی کمیٹی آن ہوم لینڈ سیکورٹی کے چیئرمین کی طرف سے امریکی مسلمانوں کے بارے میں متوقع سماعتوں پر کڑی تنقید کی گئی۔

چئیرمین پیٹر کنگ، جن کا تعلق نیو یارک کے علاقے لانگ آئی لینڈ سے ہے، اگلی جمعرات سے امریکہ کی مسلم آبادی میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر کچھ سماعتوں کا آغاز کریں گے۔ امریکہ میں موجود مسلم تنظیمیں ان سماعتوں کے اعلان کے بعد سے ہی ان کی مخالفت کرتی آ رہی ہیں اور اس سلسلے میں پہلے بھی کئی مظاہرے ہو چکے ہیں۔

ٹائمز سکوئر کے مظاہرے میں شرکاء سے خطاب کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ملک کی ایک اقلیت کو نشانہ بنانا امریکی اقدار کے خلاف ہے اور اس سے فائدے کے بجائے مزید نقصان کا اندیشہ ہے کیونکہ اس سے ملک کی مسلم آبادی میں بے گانگی کا احساس پیدا ہوگا۔

کئی عیسائی اور یہودی رہنماؤں نے اس موقع پر امریکی مسلمانوں سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور کسی بھی سماعت میں مسلم برادری کے بارے میں دیگر مذاہب کے رہنماؤں کی رائے بھی لینی چاہیےٴ۔

اپنے خطاب میں بعض رہنماؤں نے کہا کہ اگر مسئلہ شدت پسندی میں اضافے کا ہے تو ان سماعتوں میں سے لفظ مسلم نکال کر ہر قسم کی شدت پسندی پر غور کیا جانا چاہیئے ۔ اور اگر مسلمان نوجوان شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں تو غور اس پر کیا جانا چاہیے کہ وہ کون سے امور ہیں جو انہیں اِس طرف دھکیل رہے ہیں۔

خود کانگریس مین کنگ کی ویب سائٹ پر ایک مقامی چینل کو دیے گئے انٹرویو کے ذریعے وہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں تمام مسلمانوں سے مسئلہ نہیں ہے لیکن القاعدہ نے امریکی مسلمان نوجوانوں میں شدت پسندی بڑھانے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں اور اس پر نظر رکھنا ان کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سچ تو یہ ہے امریکہ کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ القاعدہ اور اس کے حامیوں سے ہے۔ اس ملک میں جو مسلمان بھی شدت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں وہ ایک بیرونی دشمن کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔’

البتہ نیو یارک میں جمع مظاہرین کا کہنا تھا کہ مسلمان پر امن امریکی شہری ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرتے ہیں اور اگر امریکہ کو القاعدہ یا انتہا پسندتنظیموں کے خطرات سے بچانا ہے تو مسلمانوں کو ساتھ لےکر چلنا ہوگا۔

اتوار کے مظاہرے میں منتظمین کے مطابق مسلم، عیسائی، یہودی اورشخصی آزادی کی مختلف تنظیموں کو ملا کر 75 تنظیموں کے نمائندوں نے حصہ لیا۔

اس کے علاوہ پاکستانی فنکار اور اقوام متحدہ کے گُڈ وِل ایمبیسیڈر، جنون گروپ سے تعلق رکھنے والے سلمان احمد نے بھی اپنی پرفارمنس سے حاضرین کا دل بہلایا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG