بھارت اور پاکستان میں تعزیہ سازی ایک فن ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آرہا ہے۔ دونوں ممالک کی کئی نسلیں اور کئی ثقافتیں اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ محرم کے جلوسوں میں تعزیوں کی زیارت نہ صرف متبرک سمجھی جاتی ہے بلکہ ان پر میوے چڑھانا، دھاگے باندھنا اور منت ماننا بھی سالہا سال سے چلی آرہی روایات کا ایک حصہ ہے۔
تعزیہ بظاہر بہت ہلکا اور دور سے صرف لکڑی اور کاغذ کا بنا ہوا کسی قدآور ایستادہ بلند عمارت کی طرح معلوم ہوتا ہے جس کے درمیان میں بہت سے در اور ان دروں کے اندر خالی جگہ موجود ہوتی ہے۔ لیکن ہلکے ہونے کے باوجود بھی اس کا وزن دو ٹن سے پانچ ٹن تک ہوسکتا ہے۔ لکڑی اور کاغذ کے علاوہ اس میں شیشہ ، پیتل ، المونیم اورپلاسٹک سمیت کئی دھاتیں ہوتی ہیں جبکہ کئی تعزیئے تو پورے کے پورے شیشے کے بھی بنائے جاتے ہیں۔
ایک تعزیہ عموماً پانچ سے دس ہزارروپے میں تیار ہوتا ہے جو اپنے سائز اور وزن کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سے دو ٹن تک کا ہوسکتا ہے تاہم اگر اس میں پیتل اور شیشے کا کام زیادہ ہوتو یہی تعزیہ خرچ میں دوگنا اور تین گنا ہوجائے گا۔
تعزیہ بنانے کی تیاریاں عیدالاضحی کے فوری بعد شروع کردی جاتی ہیں اور نومحرم تک اسے لازماً تیار کرکے عوامی زیارت کے لئے گھروں کے باہر یا امام بارگاہوں کے قریب رکھ دیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر ایک تعزیہ ایک ماہ میں تیار ہوتا ہے ۔ تعزیہ بنانے والے بھی حرف عام میں کاریگر ہی کہلاتے ہیں ۔ ایک تعزیہ تیار کرنے کے لئے کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ دس کاریگروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کراچی کے علاقے گلبہار کے رہائشی عبدالستار پچھلے 38 سالوں سے تعزیہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے یہ فن اپنے استاد نصیر سے سیکھا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ عبدالستار یہ فن اپنے بیٹے کو منتقل کررہے ہیں۔ جس وقت وی او اے کے نمائندے نے عبدالستار کے گھر کا دورہ کیا وہاں تعزیہ سازی جاری تھی اور عبدالستار کا جواں سال بیٹا تعزیہ بنانے میں مصروف تھا۔
وی او اے سے گفتگو کے دوران عبدالستار نے بتایا کہ وہ تعزیہ کسی آمدنی کی غرض سے نہیں بناتے بلکہ مذہبی عقیدت اور انسیت کی بنا ء پر وہ اس فن کے دلدادہ ہیں اور اب تک کئی افراد کو یہ فن سیکھا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تعزیہ سازی پر جو رقم خرچ کرتے ہیں اس کا نصف سے زیادہ حصہ وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں جبکہ باقی رقم ان کے ہم خیال افراد، رشتہ داراور یار دوست اٹھاتے ہیں۔
گلبہار کے علاقے میں واقع عبدالستار کا چھوٹا سا مکان اور اس کا صحن تعزیہ سازی کے لئے پورے علاقے میں مشہور ہے اور ایک انجان آدمی بھی جس نے کبھی عبدالستار کو نہ دیکھا ہو صرف تعزیہ ساز کا پتہ پوچھنے پر ان کے گھر تک پہنچا سکتا ہے۔ ان کی عمرساٹھ سال کے قریب ہے ۔ عبدالستار اسی مکان میں پیدا ہوئے تھے جبکہ اڑتیس سالوں سے تعزیہ سازی کا عمل بھی اسی مکان کے صحن میں ہوتا آرہا ہے۔
عبدالستار کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو بھی تعزیہ بنانے کا شوق تھا اور انہی کے شوق کو عبدالستار نے جلا بخشی۔ اس طرح عبدالستار کو تعزیہ بنانے کا ذوق وراثت میں ملا۔ عبدالستار کے بقول تعزیہ حضرت حسین سے عقیدت اور محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے ورنہ اس سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔ تعزیوں پر جو نقدی چڑھائی جاتی ہے وہ نیاز نذر کے طور پر حلیم اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کی تقسیم یا لنگر پر خرچ ہوجاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کاتعزیہ پورے علاقے میں سب سے خوب صورت اور قابل دید ہوتا ہے ۔ نو محرم کی شام کو یہ تعزیہ مکمل کرکے وہ اپنے گھر کے باہر رکھ دیتے ہیں جسے دیکھنے کے لئے پوری کراچی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد اور دیگر کئی شہروں سے لوگ آتے ہیں۔ تعزیے کو گھر کے باہر منتقل کرتے ہی اس پر علم رکھ دیئے جاتے ہیں، اگربتیاں جلائی جاتی ہیں، دھونی دی جاتی ہے اور عقیدت مند اس پر خشک میوے اور پھول چڑھاتے ہیں۔ اس پر عطر چھڑکا جاتا ہے جس سے پورا ماحول معطر ہوجاتا ہے۔ دور دور سے تعزیے کی زیارت کے لئے آنے والے لوگ اس پر بادام، کشمش، اخروٹ، کھیلیں، بتاشے ، چھوارے اور دوسرے خشک میوہ جات چڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کم ازکم ایک من میوہ چڑھایا جاتا ہے جس کی موجودہ مالیت ہزاروں روپے بنتی ہے۔ محرم کے تیسرے دن اس میوے کو تبرک کے طور پر پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں بند کر کے پورے محلے میں تقسیم کردیا جاتا ہے بلکہ اگر محلے کا کوئی گھر غلطی سے رہ جائے تو لوگ تبرک مانگنے خود ہی ان کے گھر چلے آتے ہیں۔
عبدالستار کا کہنا ہے کہ تعزیے پر رنگ برنگی پنیاں یا چمکنے والے خصوصی قسم کے کاغذ زیادہ لگائے جاتے ہیں تاکہ تعزیہ دور سے ہی چمکے۔ان کا کہنا ہے جو تعزیہ شیشے سے بنایا جاتا ہے وہ بہت زیادہ ری فلیکٹ کرتا ہے ۔ اس کی چمک اس قدر تیز ہوتی ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواور دس محرم کی درمیانی شب رت جگا ہوتا ہے اور ساری رات تعزیے کی زیارت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس رات محلے کے بچوں سے لیکر بزرگ تک سب گلیوں میں ہی بسیرا کرتے ہیں اور ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ محلے کی تمام دکانیں رات بھر کھلی رہتی ہیں۔ کئی دن پہلے ہی محلے میں سبیلیں لگادی جاتی ہیں اور ان سے دودھ کا شربت اور ٹھنڈے پانی کی تقسیم جاری رہتی ہے۔ اس رات تو ان پر رونقیں اور بڑھ جاتی ہیں اور یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا ہے۔
دس محرم کو جب کہ واقعہ عاشور پیش آیا تھا اس دن صبح ہی صبح لوگ جلوس میں شرکت کے لئے گھروں سے امام بارگاہوں کے لئے نکل جاتے ہیں اور دوپہر کو ظہر کی نماز کے قریب تعزیہ اٹھایا جاتا ہے۔ تعزیہ اٹھائے جانے سے مراد تعزیئے کو لے کر مرکزی جلوس میں شرکت ہے ۔ موجودہ حالات کے پیش نظر تعزیئے کا جلوس جیسے ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں داخل ہوتا ہے اس کی حفاظت کی ذمے دار علاقہ تھانے کی ہوجاتی ہے۔ پھر جب تعزیے کا جلوس تیسرے علاقے میں پہنچتا ہے تو اس کی حفاظت کی ذمے داری تیسرے علاقے کی ہوجاتی ہے۔ مختلف علاقوں اور شاہراہوں سے ہوتا ہوا یہ تعزیہ جلوس نیٹی جیٹی پر جاکر ختم ہوتا ہے جہاں ان تعزیوں کو سمندر میں بہادیا جاتا ہے ۔ سمندر برد کرنے کا یہ عمل 'تعزیوں کو ٹھنڈا کرنا' کہلاتا ہے۔