پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد پہلے ماسکس کی قلت کی شکایات سامنے آئیں اور پھر ہینڈ سینیٹائزر نایاب ہو گئے۔ اس صورتِ حال میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ پاکستانی ادارے کا تیار کردہ سینیٹائزر جلد مارکیٹ میں دستیاب ہو گا۔
فواد چوہدری نے 18 مارچ کو اس حوالے سے اپنے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پاکستان کونسل فار سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کا عالمی ادارہ صحت کے اصولوں کے مطابق بنایا گیا ہینڈ سینیٹائزر بنا لیا گیا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ تمام صوبائی حکومتیں پی سی ایس آئی آر سے رابطہ کریں اور یہ سینیٹائزر یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی دستیاب ہو گا۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں فواد چوہدری سے رابطہ کرنا چاہا تو ان کا نمبر بند پایا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ملک میں موجود نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ نے پی سی ایس آئی آر لاہور دفتر رابطہ کیا تو ڈائریکٹر جنرل قرةالعین نے بتایا کہ فواد چوہدری کی ٹوئٹ کے بعد سے بہت سے صحافی حضرات اُن سے رابطہ کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول، ہینڈ سینیٹائزر کے لیے ادارہ ابھی خام مال کو اکٹھا کر رہا ہے جس کے حصول کے لیے خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈی جی پی سی ایس آئی آر لاہور نے بتایا کہ بازار میں سینیٹائزر بنانے کے لیے معیاری خام مال دستیاب نہیں ہے اور جو دستیاب ہے اُس کے ڈبوں کے اوپر جو لکھا ہوا ہے وہ اندر موجود نہیں ہے۔
"خام مال میں ہم کیمیکل اور خالی بوتلوں کو بھی جمع کر رہے ہیں۔ جمعرات کے روز کچھ نمونے تیار کیے تھے وہ ہم نے وزارت کے دفتر اسلام آباد بھجوا دیے ہیں۔ تاکہ شروع میں جہاں لوگوں کو ضرورت ہے اُنہیں فراہم کیا جا سکے۔ جلد لاہور سے سینیٹائزر بنانے شروع کریں گے۔"
قرةالعین نے مزید بتایا کہ بازار میں سینیٹائزر کو بھرنے کے لیے خالی بوتلوں کے حصول میں بھی خاصی دشواری کا سامنا ہے۔ جیسے ہی جراثیم سے بچانے والا محلول (ہینڈ سینیٹائزر) کا خام مال مکمل طور پر اکٹھا ہو جائے گا تو لاہور سے بھی پیداوار شروع ہو جائے گی۔
ڈی جی پی سی ایس آئی آر نے بتایا ہینڈ سینیٹائزر بنانے کے لیے محکمہ ایکسائز سے اجازت نامہ حاصل کر لیا ہے۔
ان کے بقول، ہینڈ سینیٹائزر بنانے کے لیے ایتھانول اور آئیسو پروبینول بنیادی اجزا ہیں جس میں سے ایتھانول خرید لیا ہے تاہم آئیسوپروپینول درکار ہے۔ تاہم دیگر اجزا میں کلوریکسی ڈائین، ہائیڈروجن پرآکسائیڈ، ایلوویرا جیل یا گلیسرین اور باقی چیزیں شامل ہیں۔ جو مارکیٹ سے اکٹھی کی جا رہی ہیں۔
قرةالعین نے بتایا کہ بازار میں ہینڈ سینیٹائزر کی ایک چھوٹی خالی بوتل جو پچیس روپے میں دستیاب ہوتی تھی وہ اب پچپن روپے میں مل رہی ہے۔ کہیں سے پچاس بوتلیں مل رہی ہیں اور کہیں سے تیس۔ اِس طرح خام مال اکٹھا کیا جا رہا ہے۔
قرةالعین نے دعوٰی کیا کہ جیسے ہی خام مال مکمل طور پر مل جائے گا ہینڈ سینیٹائزر کی تیاری پی سی ایس آئی آر کے لاہور، کراچی اور پشاور کے دفاتر سے شروع کر دی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ تیار شدہ ہینڈ سینیٹائزر کی بوتلیں پی سی ایس آئی آر کے لاہور، کراچی اور پشاور کے دفاتر سے دستیاب ہوں گی اور 200 ملی لیٹر کی بوتل 350 روپے میں دستیاب ہو گی۔
سروسز انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ انتہائی نگہداشت وارڈ کے سینئر فزیشن اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید کہتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر میں سب سے پہلے ہاتھوں کا دھونا شامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہینڈ سینیٹائزر صرف اُس جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں پانی اور صابن دونوں چیزیں دستیاب نہ ہو۔
ڈاکٹر محمد جاوید کے بقول صابن اور ہنیڈ سینیٹائزر میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ پانی کے بغیر ہی ایک خاص قسم کا محلول فوراً ہاتھوں پر اور اگر کوئی جراثیم وغیرہ موجود ہو تو وہ فوراً مر جاتے ہیں یا ختم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اُس میں استعمال ہونے والے اجزاء میں الکوحل ہوتا ہے جو جراثیم کو مارنے کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹائزر کا بنیادہ فائدہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بار بار ہاتھ دھونے نہیں جا سکتا تو وہ اپنی جیب میں سینیٹائزر رکھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ صاف کر سکتا ہے۔
ان کے بقول، شہریوں کو اگر ہینڈ سائینیٹائزر دستیاب نہیں ہیں تو بہتر ہے کہ وہ صاف پانی اور صابن سے اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں۔ پانی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔