دنیا بھر کی طرح امریکہ کیلئے بھی چین کی درآمدات رک گئی ہیں اور دیگر اہم طبی اشیاء کی طرح فیس ماسکس کی مانگ بڑھ جانے کے باعث ان کی سپلائی کم پڑنے لگی ہے۔ اور فی الحال چین سے فوری طور پر کوئی کھیپ آنے کی توقع نہیں ہے۔
کرونا وائرس پھیلنے کے ساتھ فیس ماسک دنیا بھر میں نہ صرف اس وباء کی علامت بن گئے ہیں بلکہ بہت اہم ضرورت بھی اور لاکھوں لوگ ہر روز اسے لگائے نظر آتے ہیں۔
امریکہ سمیت دنیا بھر میں ماسک کی قلت نظر آنے لگی ہے۔ امریکی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی جدوجہد میں ملک کو سالانہ تین اعشاریہ پانچ ارب سرجیکل ماسک اور سانس لینے کے آلات کی ضرورت ہو گی اور امریکہ ان کا صرف ایک فیصد تیار کر سکتا ہے۔
امریکن ہاسپٹل ایسوسی ایشن کی اسوسی ایٹ میڈیا ڈئریکٹر ایریکہ ٹرم کہتی ہیں کہ ملک بھر کے اسپتالوں میں اس طبی ساز و سامان کی کھپت جاری ہے اور اس پر توجہ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو ایک ای میل میں بتایا کہ اسپتال کے عملے کے حفاظتی لباس اور دیگر گیجٹس کی بچت کیلئے ایک سے زیادہ مریضوں کو ایک ساتھ رکھا جانے لگا ہے۔
ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر طبی عملہ اس سامان کی کمی کے باعث اپنی حفاظت خود کرنے کے اصول پر عمل کر رہا ہے۔
بدھ کے روز صدر ٹرمپ نے فیڈرل پروٹیکشن ایکٹ کے تحت نجی شعبے کو سپلائی کی کمی سے نکالنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی وائٹ ہاؤس نے تعمیراتی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے این پچانوے نامی ماسک مقامی اسپتالوں کو عطیہ کر دیں۔
ہزاروں میل دور چائی منگسیان ان کارخانہ داروں میں شامل ہیں جو امریکہ کو مال سپلائی کرتے رہے ہیں۔ وہ کرونا وائرس کے مرکزِ آغاز چینی صوبے ہوبئی میں ماسک بنانے والی فیکٹری کے مالک ہیں۔ لاک ڈاؤن کے باعث چین کے دیگر چھوٹے کاروباری اداروں کی طرح وہ بھی کچھ نہ بنا سکے۔ ان کی فیکٹری تباہ ہو گئی۔ مگر اب حالات بدلنے لگے ہیں اور ان کے 150 کارکن کام پر واپس آ گئے ہیں اور ہر روز دو لاکھ ماسک بناتے ہیں مگر یہ صرف چین کیلئے ہیں برآمد نہیں کئے جا سکتے۔
کرونا وائرس کی وباء سے پہلے چین دنیا میں ماسک کی نصف تعداد برآمد کرتا تھا۔ موجودہ حالات میں یہ پیداوار10 ملین روزانہ سے بڑھا کر 117 ملین روزانہ کر دی گئی ہے۔ چین میں سرکاری کمپنیاں اور آئی فون بنانے والی کمپنی فوکسکوم جیسی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں بھی اب ماسک تیار کر رہی ہیں۔
امریکہ میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کے تازہ ترین اقدامات ماسک کی تیاری میں توسیع کر دیں گے مگر اس میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ اس کیلئے مشینوں کی ضرورت ہو گی جو چھ ماہ سے پہلے دستیاب نہیں ہوں گی۔