وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے امید ظاہر کی ہے کہ کرونا وائرس کے باعث پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا معطل شدہ مالیاتی پروگرام جلد بحال ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں آئی ایم ایف کے ساتھ جاری گفت و شنید کو باضابطہ شکل دینے کے لیے وفد چند ہفتوں میں پاکستان آئے گا۔
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیرِ اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف مشن ٹیکس اصلاحات، وصولی اور بجلی کے شعبے میں بہتری کے بارے حکومتی اقدامات کا جائزہ لے گا۔
ان کے بقول آئی ایم ایف مشن کے دورۂ اسلام آباد کے بعد یہ پروگرام مکمل طور پر اپنی درست سمت میں گامزن ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف نے گزشتہ سال جولائی میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کے 'توسیعی فنڈ سہولت' کی منظوری دی تھی۔
قرض کی یہ رقم تین سال کے عرصے میں وقتاً فوقتاً قسط وار جاری کی جانی تھی لیکن اس کے لیے پاکستان کو اقتصادی اصلاحاتی پروگرام وضع کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔
پاکستان کو اب تک آئی ایم ایف سے ایک ارب 44 کروڑ ڈالرز دو اقساط میں مل چکے ہیں، تاہم کرونا وائرس کے باعث یہ مالیاتی پروگرام معطل کر دیا گیا تھا۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات اچھے انداز میں چل رہے ہیں اور مالیاتی ادارے نے کرونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر اضافی فوری فراہم بھی کیے تھے۔
حفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ٹیکس کی وصولی میں بہتری، سرکاری اخراجات میں کمی اور بہتر طریقے سے قرضوں کی ادائیگی شامل ہے۔
حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان زیادہ تر امور میں اتفاق ہے البتہ دو معاملات پر اتفاق ہونا باقی ہے کہ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے اور وصولیوں میں اضافے کے لیے کس طرح آگے بڑھا جائے۔
مشیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ معیشت کے حوالے سے مثبت خبریں آ رہی ہیں۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس اور ملکی سیاسی صورتِ حال کے باعث آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کو نرم کیے بغیر اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی اشاریوں میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے لیکن یہ کہنا کہ ہر چیز ٹھیک ہو گئی ہے حقائق کے منافی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر بڑھ رہی ہے اور ایسے میں آئی ایم ایف پروگرام آئندہ سال ہی بحال ہو سکے گا۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کے پہلے کوارٹر میں پاکستان کے محصولات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جب کہ اخراجات 13 فی صد تک بڑھے اور خسارہ گزشتہ برس سے تقریباََ 70 فی صد بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں آئی ایم ایف چاہے گا کہ بجٹ خسارہ کم ہو، جس کے لیے حکومت کو منی بجٹ لانا ہو گا جو کہ کرونا وائرس اور ملکی سیاسی صورتِ حال کے باعث نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ہمارا زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے جس کے منفی اثرات معیشت کے ہر شعبے پر رونما ہوں گے۔
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کا سب سے بنیادی مقصد محصولات اور حکومتی اخراجات میں توازن پیدا کرنا ہے اور اس حوالے سے حوصلہ افزا بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس نے پاکستان کی معیشت پر وہ اثرات مرتب نہیں کیے جو آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے اندازے لگائے تھے۔
ڈاکٹر اکرم الحق سمجھتے ہیں کہ بعض شعبوں میں اصلاحات میں سست روی کے باوجود پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام آئندہ برس کے آغاز میں بحال ہو جائے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کو قرض کی تیسری قسط حاصل ہو سکے گی۔
واضح رہے کہ کرونا وبا کے باعث پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے پیشِ نظر آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے گئے قرضوں کی شرائط آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران نرم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔