بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ سماجی کارکن گلالئی اسماعیل چار ماہ روپوش رہنے کے بعد امریکہ پہنچ گئی ہیں۔ اُن کا الزام ہے کہ ان کا نام 'ہٹ لسٹ' میں تھا اس لیے انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
گلالئی اسماعیل رواں سال 23 مئی سے روپوش تھیں اور وہ حال ہی میں امریکہ پہنچی ہیں۔
چار ماہ کے دوران اپنے پہلے ٹی وی انٹرویو میں گلالئی اسماعیل نے روپوشی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے سکیورٹی ایجنسیوں سے بچنے لیے پاکستان کے آٹھ مختلف شہروں میں قیام کیا اور اپنی پناہ خفیہ رکھنے کے لیے فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی بند کر دیا تھا۔"
ان کے بقول "والدین سے رابطہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مگر میں نے لڑنا نہیں چھوڑا۔ میری آواز وقتی طور پر تو بند ہوئی۔ لیکن وہ ہمیشہ کے لیے میری آواز بند نہ کر سکے۔"
گلالئی اسماعیل کا کہنا تھا کہ روپوشی کے دوران وہ کسی ایک گھر میں ایک ہفتے سے زیادہ وقت نہ ٹھہریں، تاکہ ان کے میزبانوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے خصوصی گفتگو میں گلائی اسماعیل نے بتایا کہ وہ برقعہ پہن کر باہر نکلتی تھیں اور خوش قسمتی سے وہ کبھی منٹوں تو کبھی گھنٹوں کے فاصلے سے پولیس کے چھاپوں سے بچ جاتی تھیں۔
گلالئی اسماعیل نے کہا کہ انہوں نے پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ تب کیا جب اُنہیں پتا چلا کہ اُن کا نام ایک ریاستی ادارے کی مبینہ ’ہٹ لسٹ‘ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
گلالئی نے کہا و"ہ مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے۔ مجھے پیغامات ملے تھے کہ مجھے مارنے کا مکمل ارادہ کر لیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر میرے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ میں کوئی بہت بڑی دہشت گرد ہوں۔ میرا پتہ چلانے کی غرض سے میرے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی ہراساں کیا گیا۔ میرے دوستوں کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا گیا کہ مجھے قتل کیا جائے گا۔”
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اُن کے ساتھ یہ سلوک پشتون تحفظ تحریک کی حمایت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
گلالئی نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ نے 29 مئی کو پاکستانی حکومت کو خط لکھا تھا، جس میں میرا نام ‘ہٹ لسٹ ‘میں شامل ہونے سے متعلق پوچھا گیا۔ پاکستان سے صفائی مانگی گئی جبکہ میری حفاظت سے متعلق بھی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔
گلالئی اسماعیل کہتی ہیں کہ اس سال کے شروع میں اُنہیں پشاور میں ایک خفیہ ادارے کے دفتر بلایا گیا تھا، جہاں ان کے بقول اُنہیں جان سے مارنے کی دھمکی والد کے سامنے دی گئی تھی۔
'گلالئی اسماعیل جیسے لوگ بیرون ملک پناہ کے خواہش مند'
تاہم خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی نے گلائی اسماعیل کا موقف مسترد کیا ہے۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق گلالئی اسماعیل کے حوالے شوکت علی یوسف زئی نے کہا ہے کہ اُن کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کرنے کے سلسلے میں مقدمات درج تھے اور یہ مقدمات عدالت میں زیر سماعت تھے۔
شوکت یوسف زئی نے بتایا کہ حکومت کے کسی اقدام سے کسی کو مسئلہ تب ہوگا جب وہ قانون شکنی یا بد عنوانی میں ملوث ہو گا۔
صوبائی وزیر کا دعویٰ تھا کہ حکومت قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔
شوکت علی یوسف زئی نے کہا کہ گلالئی اسماعیل کے خلاف مقدمات چونکہ عدالتوں میں زیر سماعت تھے لہذٰا اُنہیں عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گلالئی اسماعیل جیسے لوگ ازخود اس قسم کے مسائل پیدا کر کے بیرون ملک پناہ لینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والی گلالئی اسماعیل کے خلاف صوابی، پشاور اور دیگر اضلاع میں انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔
پچھلے سال صوابی میں درج ایک مقدمے میں گلالئی اسماعیل کو اُس وقت اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ غیر ملکی دورے کے بعد واپس ملک پہنچی تھیں۔
ایک اور مقدمے میں ان کا نام مبینہ طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے جانے کے بعد وہ روپوش ہوگئی تھیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں اُنہوں نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے اپیل بھی دائر کر رکھی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران گلالئی اسماعیل سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا۔
'سب بھارتی اور بین الاقوامی پروپیگنڈا ہے'
’وائس آف امریکہ‘ کے رابطہ کرنے پر پاکستان کی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر آصف ہارون راجہ نے گلالئی اسماعیل کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بھارتی اور بین الاقوامی پروپیگنڈا ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ آصف ہارون راجہ کا کہنا تھا کہ جو الزامات کشمیر میں بھارتی فوج پر لگائے جاتے ہیں، ایسے ہی الزامات بلوچستان اور فاٹا میں پاکستانی فوج پر لگائے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں گلالئی اسماعیل پر بغاوت، فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے اور بیرونی فنڈنگ کے الزامات میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت چھ مقدمات درج ہیں۔ جن کے حوالے سے گلالئی اسماعیل کہتی ہیں کہ یہ مقدمات اس وقت درج کیے گیے جب وہ 10 سالہ بچی فرشتہ کے لیے اسلام آباد میں منعقدہ احتجاج میں شریک ہوئیں۔
گلالئی کے پاکستان سے روپوش ہونے کے بعد خیبر پختونخوا کے انسداد دہشت گردی کے ادارے نے گلالئی اور ان کے والدین کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات میں مقدمات درج کیے۔
گلالئی کے روپوش ہونے کے بعد ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے والد، پروفیسر اسماعیل نے بتایا تھا کہ ان کے گھر پر وردی اور سادہ لباس میں سکیورٹی کے اہلکاروں نے کم سے کم چار مرتبہ چھاپا مارا۔
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ نے گلالئی اسماعیل کے گھر پر مارے گئے چھاپوں میں مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ادارے کے ملوث ہونے کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔
اُن کے بقول خفیہ ادارے 'آئی ایس آئی' کا یہ کام نہیں کہ خواتین یا ان کے گھر میں رہنے والوں کو ہراساں کریں۔ گلالئی کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ اگر فوج نے انہیں غائب کیا ہوتا تو یہ ایسے روپوش نہ رہ سکتیں۔
بتیس سالہ گلالئی اب نیویارک میں اپنی بہن کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔
گلالئی کا کہنا ہے کہ وہ جانتی تھی کہ میرے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو پہلے نشانہ بنایا جائے گا۔ اس لیے میں نے ان لوگوں کی لسٹ بنائی جو میرے قریبی دوست نہیں تھے۔ میں نے چار مہینے ان لوگوں کے ساتھ گزارے۔ سب نے میری بہت مدد کی۔ مگر ایسے بھی واقعات پیش آئے جب لوگ مدد کرنے سے گھبرا رہے تھے۔
اُن کے بقول جب وہ اپنے والد کے دوست کے گھر پہنچیں تو وہ انہیں دیکھتے ہی گھبرا گئے۔ ان کے ہاتھ لرزنے لگے۔ اگلی صبح جب وہ اٹھیں تو انہوں نے کہا کہ ان کی معاشرے میں بہت عزت ہے۔ وہ نہیں چاہتے پولیس ان کے گھر پر چھاپہ مارے۔ تو مجھے وہاں سے جانا پڑا۔ جیسے میں کوئی مطلوب دہشت گرد ہوں۔
انہوں نے کہا ’’جب امریکہ پہنچنے کے لیے میں سفر میں تھی، تو مجھے یقین نہیں تھا کہ میں محفوظ پہنچ پاؤں گی۔ اجنبی لوگوں میں بیٹھ کر یہی سوچ رہی تھی کہ مجھے اپنے والدین کو خدا حافظ کہنے کا موقع بھی نہ ملا۔ مجھے ان کی یاد آ رہی تھی۔ میرا دل خفا تھا۔ مگر پھر میں نے سوچا ابھی دل خفا کیوں کروں، جب یہ بھی نہیں معلوم کہ آیا میں کبھی باہر نکل پاؤں گی بھی یا نہیں۔”
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں رہ کر مقدمات کا مقابلہ کرنے کے بجائے انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا، گلالئی کا کہنا تھا کہ “جب میں نے یہ راستہ چنا تو مجھے معلوم تھا کہ اب واپسی نہیں ہو گی۔ مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ مجھے انصاف نہیں ملے گا۔ مجھے 40 گھنٹے غیر قانونی حراست میں رکھنے والوں کو کیا سزا ملی؟ میری تنظیم ’‘aware girls کو دوبارہ کام کرنے کی اجازت کے عدالتی فیصلے کے چھ ماہ بعد بھی تنظیم کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ تو میں کیسے انصاف کی توقع رکھوں؟”
گلالئی کی بازیابی کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی سرگرم رہی ہیں۔
انہوں نے اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ میں رہ کر وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائیں گی، اور امن کے لیے کوششیں جاری رکھیں گی۔