آسٹریلیا کے باشندے ممدوح حبیب ایک ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ ان برسوں کے بارے میں ہے جو انھوں نے امریکہ پر نائن الیون کے حملوں کی پیشگی معلومات رکھنے اور عسکریت پسندوں کو تربیت دینے کے الزامات کے شبہے میں گوانتانامو بے کے قید خانے میں گزارے۔ ا س ڈرامے Waiting for Mamdouh میں انہوں نے بتایا ہے کہ انھیں کس طرح ایک دوسرے ملک میں لے جایا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔
ممدوح حبیب کا کہنا ہے کہ انہیں گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے ایک مہینے بعد پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تھے اور اپنے بچوں کے لیے پاکستان میں اسکول تلاش کر رہے تھے۔ ایک نئے ڈرامے میں انھوں نے بتایا ہے کہ پاکستان میں گرفتاری کے بعد انھیں امریکی عہدے داروں کے حکم پر مصر بھیج دیا گیا جہاں انہیں اذیتیں دی گئیں۔ یہ ہے ڈرامے کا ایک اقتباس:
’وہ اپنے ہاتھ صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انھوں نے مجھے اذیتیں دینے کے لیے مصر بھیج دیا۔ وہاں مجھے مارا پیٹا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ مجھے دوسری قیدیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ وہ ایک دوسری کوٹھڑی سے ایک قیدی کو لائے، اسے بجلی کے جھٹکے دیے اور وہ میری آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو گیا۔‘
ممدوح حبیب کے پاس آسٹریلیا اور مصر دونوں ملکوں کی شہریت ہے۔ انہیں مصر سے گوانتانامو بے بھیج دیا گیا جہاں امریکی حکومت کا فوجی قید خانہ ہے۔ پانچ برس بعد انہیں کوئی الزام لگائے بغیر آسٹریلیا واپس بھیج دیا گیا۔ حبیب کہتے ہیں کہ صدر اوباما کو چاہیئے کہ گوانتانامو کے قید خانے کو بند کر دیں اور rendition یعنی قیدیوں کو دوسرے ملک بھیجنے کے بارے میں، جہاں انہیں اذیتیں دی جاتی ہیں، حقیقت بیان کر دیں۔ اوباما انتظامیہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ گوانتانامو بے کے قید خانے کو بند کر دے گی۔
حبیب آسٹریلیا کی حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت ایک عالمی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد افراد کے حقوق کو ختم کر نا ہے:
’آسٹریلیا کی حکومت بہت سے باتوں پر پردہ ڈال رہی ہے۔ آسٹریلیا کے لوگ بہت سیدھے سادھے ہیں۔ انہیں کچھ نہیں معلوم کیا ہو رہا ہے۔ ہم جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں لیکن یہ ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔‘
تھیٹر میں پیش کیے جانے والے اس ڈرامے میں سابق وزیرِ اعظم جان ہاورڈ پر سخت تنقید کی گئی ہے کہ انھوں نے آسٹریلوی شہریوں کو کسی الزام کے بغیر، گوانتانامو میں قید میں رکھنے کی اجازت دی۔
ڈرامے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کی اسیری کے زمانے میں آسٹریلیا میں ان کی اہلیہ ماہا پر کیا بیتی۔ ڈرامے میں ماہا کا رول ادا کرنے والی خاتون کہتی ہیں:
’خواتین و حضرات، آج میری بات سننے کے لیے آپ کا شکریہ۔ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ لیکن مسٹر ہاورڈ کا رویہ جنگی مجرم جیسا ہے کیوں کہ انھوں نے آسٹریلیا کے شہریوں کو گوانتانامو بے میں بند کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ انہیں اور ان کی حکومت کو اپنے شہریوں کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ میرے شوہر چار برس سے گوانتانامو بے میں ہیں اور سب نے چُپ سادھ رکھی ہے۔ کیا ہم خوف زدہ ہیں؟ میرا شوہر کوئی کتا نہیں ہے کہ آپ اسے پنجرے میں بند کر دیں اور مرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ آسٹریلیا کی حکومت کو چاہیئے کہ وہ میرے شوہر کو واپس لائے۔ وہ جس جہنم میں ہیں، وہاں سے انہیں نکالا جائے۔‘
حبیب کے علاوہ ایک اور آسٹریلوی ڈیوڈ ہِکس بھی گوانتانامو میں قید تھے، جو پیشے کے لحاظ سے کینگرو کے شکاری تھے۔ انھوں نے کسی مقدمے کے بغیر پانچ برس گوانتانامو میں گزارے۔ آخر انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے القاعدہ کے دہشت گرد ی کے نیٹ ورک کو مدد فراہم کی تھی۔ اپنی قید پوری کرنے کے بعد وہ آسٹریلیا واپس آ گئے اور اب آزاد ہیں۔
کرینڈا سائیٹ جنھوں نے Waiting for Mamdouh کی تصنیف میں حصہ لیا ہے، کہتے ہیں کہ اس ڈرامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بے گناہ لوگوں کے لیے کتنے خطرات ہیں:
’میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے ڈراموں سے لوگوں میں یہ آگہی پیدا ہو سکتی ہے کہ ہم سب کے ساتھ کس قسم کی بدسلوکی ممکن ہے۔ اگلا ممدوح حبیب کون ہو گا، اگلا ڈیوڈ ہِکس کون ہو گا، اگلا شخص کون ہو گا جو محض اتفاق سے غلط وقت پر غلط جگہ موجود ہو؟‘
آسٹریلیا کی کابینہ کی سابق رُکن فرین بیلی کہتی ہیں کہ ’حبیب کے کیس میں جو طریقہٴ کار اختیار کیا گیا وہ صحیح تھا۔ ان کا خیال ہے کہ کوئی بھی وزیر جو فیصلہ کرتا ہے، چاہے وہ کسی کو واپس لانے کے بارے میں ہو جو کسی دوسرے ملک یا علاقے میں قید ہو، اسے اپنے محکمے کے مشورے پر چلنا پڑتا ہے۔ بظاہر ہماری اس وقت کی حکومت کے پاس معقول وجوہات موجود تھیں جن کی بنا پر انہیں ا س سے پہلے آسٹریلیا واپس نہیں لایا گیا۔‘
اگرچہ آسٹریلیا کی حکومت نے حبیب پر کوئی الزامات عائد نہیں کیے، لیکن ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا۔ ان کی واپسی کے بعد میڈیا میں جو رپورٹیں شائع ہوئیں ان کے مطابق انہیں سیکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا رہا کیوں کہ ان کے بعض مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ رابطے تھے۔ آسٹریلیا کے حکام اس بارے میں کچھ کہنے کو تیار نہیں کہ کیا ان کے بارے میں اب بھی تفتیش ہو رہی ہے۔ حبیب کہتے ہیں کہ وہ نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیلی کہتی ہیں کہ حبیب کے بارے میں آسٹریلین معاشرے کے خیالات مِلے جُلے ہیں۔ تین برس پہلے حبیب نے سڈنی میں ایک عہدے کے لیے مقامی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ آسٹریلیا کے بعض لوگ اب بھی انہیں شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ 2001ء کے آخر میں پاکستان میں کیا کر رہے تھے، جب کہ بعض دوسرے لوگوں کو ان سے ہمدردی ہے۔