|
لاہور -- پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد احتجاج کو ایک ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے، لیکن احتجاج کے دوران حکومتی کریک ڈاؤن اور ہلاکتوں کے الزامات پر حکومتی رہنماؤں اور پی ٹی آئی کی جانب سے بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے کریک ڈاؤن کے دوران سینکڑوں ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا، تاہم پارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق کریک ڈاؤن میں 12 پی ٹی آئی کارکن ہلاک ہوئے۔ حکومت کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جا رہی ہے۔
ان الزام تراشیوں کے دوران حکومت نے منفی پروپیگنڈے کی روک تھام کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ اسلام آباد میں دوبارہ احتجاج کا راستہ روکنے کے لیے حکمتِ عملی بھی زیرِ غور ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اسلام آباد میں دوبارہ احتجاج کا خدشہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح حکومت سائبر کرائم ترمیمی بل اور پیکا ایکٹ میں تبدیلی پر بھی غور کر رہی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق سائبر کرائم ترمیمی بل کے دستیاب ابتدائی مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز ہے۔
مقامی میڈیا پر دستیاب ابتدائی مسودے کے مطابق فیک نیوز دینے والے کو پانچ سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکے گی۔ اِسی طرح اتھارٹی کو سوشل میڈیا سے مواد بلاک کرنے یا ہٹانے سمیت حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے اور دیگر مواد ہٹانے کا اختیار ہو گا۔
دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے چئیرمین بیرسٹر علی گوہر نے پیر کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کے بعد مؤقف اپنایا ہے کہ جو لوگ ڈی چوک احتجاج میں سینکڑوں ہلاکتوں کی باتیں کر رہے ہیں جماعت ان سے اعلانِ لاتعلقی کرتی ہے۔ اُن کے بقول پی تی آئی کے حالیہ احتجاج میں 12 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
حکومت اور پی ٹی آئی نے کیا کھویا کیا پایا؟
تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی کہتے ہیں کہ 26 نومبر کے احتجاج کا حکومت اور پی ٹی آئی کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس سارے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار مزید کھل کر سامنے آیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتیں آپس میں اُلجھ کر اپنا کردار خود ہی محدود کر رہی ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بڑے فیصلوں میں حکومت، اپوزیشن اور پارلیمنٹ کا کردار نظر نہیں آ رہا۔
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگر ایک صوبے کی حکومت اسی طرح وفاق پر حملہ آور ہوتی رہی تو وفاقی حکومت کو بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت اِس سلسلے میں کیا، کتنے اور کیسے اقدامات کرتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔
احمد بلال محبوب کی رائے میں پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج پر جماعت کی قیادت کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر باتیں کر رہی تھی۔ اِس کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں پر مسلسل اور کافی عرصے سے مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا تھا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس مرتبہ جماعت کی قیادت کو حقائق کو چیک کر کے اپنا نقطہ نظر دینا چاہیے تھا۔
'فریقین بوکھلاہٹ کا شکار ہیں'
تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ فریقین بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ احتجاج میں ہونے والی ہلاکتیں ہزاروں سے سینکڑوں اور اب 12 پر آ کر رک گئی ہیں۔
اِسی طرح یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کیا بات کہی تھی؟ بشرٰی بی بی اور گنڈا پور کے درمیان کیا معاملہ تھا؟ بانی جماعت کی ہدایات کیا تھیں اور کتنا عمل ہوا؟ یہ سارا تذبذب موجود ہے۔
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اسی طرح حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد نہیں آئیں گے۔ لیکن بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے اور ڈی چوک تک بھی پہنچ گئے۔
حکومت سخت اقدامات کیوں کر رہی ہے؟
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ احتجاج اور ہلاکتوں سے متعلق پھیلائی جانے والی فیک نیوز نے حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ سخت اقدامات کرے اور ذمے داروں کا تعین کرتے ہوئے اُنہیں کیفرِ کردار تک پہنچائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کو بھی چاہیے کہ وہ جو کچھ کہتی رہی ہے، اس کے وہ شواہد مہیا کرے اور حکومت بھی ثبوت سامنے لائے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پیر کو بیرسٹر گوہر خان نے عمران خان سے منسوب جو گفتگو کی وہ بہت حوصلہ افزا تھی۔ اس گفتگو میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ اسمبلیوں کے سیشن بلائے جائیں اور ان اجلاسوں میں بھرپور انداز سے شرکت کی جائے۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان تحریکِ انصاف اپنی حکمتِ عملی پر از سرِ نو غور کرے اور احتجاجی سیاست کے بجائے جمہوری اور پارلیمانی جدوجہد کا راستہ اختیار کرے۔
مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں کوئی چھاپہ مار تنظیمیں نہیں ہوتیں کہ وہ اپنے کارکنوں کی اِس طرح سے توانائیاں ضائع کریں۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اپنے کارکنوں کو انتخابات تک لے کر جائیں اور وہاں اپنے جوہر آزمائیں۔
مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ جس طرح عمران خان اپنی سیاست کر رہے ہیں، اُس سے اُن کا راستہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی پارلیمان کے اندر زیادہ سے زیادہ متحرک ہو اور وہاں اپنا پوری طرح اپنا کردار ادا کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس ایوان میں اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر وہ پارلیمنٹ کی سرگرمیوں میں متحرک ہو تو وہ وہاں اثر انداز ہوں گے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ ہے وہ باقاعدہ قواعد کے مطابق ایوان کے اندر اپنا مؤقف رکھ سکتے ہیں۔
اُن کے بقول پی ٹی آئی کو اپنی سیاست صرف عمران خان سے منسلک کرنے کے بجائے عوام سے جڑنا ہو گا اور مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر تحریکِ انصاف اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی چھوڑ کر عوامی مسائل کی سیاست کرے تو اسے فائدہ ہو گا۔
فورم