شدید بارشوں کے باعث آنے والے بدترین سیلابوں سے جہاں دو کروڑ سے زیادہ پاکستانی بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہاں دنیا بھر میں ایسے افراد بھی کروڑوں میں ہیں جنہیں خشک سالی اور قحط کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑنا پڑاہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں انتہاؤں کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے گلوبل وارمنگ ، جس کے باعث گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور موسموں کا توازن بگڑ رہاہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سمندروں کو خاص طورپر متاثر کررہے ہیں اوران کی سطح نمایاں طورپر بلند ہورہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلی صدی کے آغاز تک کئی ساحلی ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہوجائیں گے۔ جن میں مالدیپ سر فہرست ہے۔ یہ ملک بحرہند کی سطح سے صرف دس فٹ بلند ہے۔ گذشتہ سال مالدیپ کے صدرناشید نے اس اہم مسئلے کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے اپنی کابینہ کا اجلاس سمندر میں زیر آب منعقد کیاتھا۔
لیکن اب ایک نئی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ سمندرکی سطح تیزی سے بلند ہونے کا ذمہ دار گلوبل وارمنگ سے زیادہ حضرت انسان خود ہے اور وہ زمین سے پانی کھینچ کھینچ کر انہیں ندی نالوں اوردریاؤں میں ڈال کر سمندر کی طرف دھکیل رہاہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر روزانہ 280 کیوبک کلومیٹر پانی پمپوں کے ذریعے زمین سے نکالا جارہاہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین سے پانی نکالنے کی یہ مقدار 1960 کے مقابلے میں دوگنی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ زمین سے پانی انسانی ضروریات اور کاشت کاری کے لیے پمپ کیا جاتا ہے ، لیکن قدرتی عمل کے باعث وہ کھیتوں سے بخارات میں ڈھل کر اورپھر بارش کی شکل میں برس کر یانکاسی آب اور دوسرے مراحل سے ہوتا ہوا بالآخر سمندر میں جاگرتاہے جو نہ صرف آبی حیات کو نقصان پہنچا رہاہے بلکہ سمندر کی سطح مسلسل بلند ہونے سے ساحلی علاقوں کے لیے خطرات میں بھی اضافہ کررہاہے۔
سائنسی جائزوں سے پتا چلا ہے کہ سمندر کی سطح میں بلندی کا سبب بننے والے پانی کا ایک چوتھائی حصہ وہ ہے جو انسان زمین سے کھینچ رہاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی مقدار میں پانی نکالنے سے زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہےہیں۔ جس کی ایک نمایاں مثال دنیا کے ایک سو سے زیادہ ملکوں کو اناج فراہم کرنے والی آٹھ امریکی ریاستوں کے زیر زمین میٹھے پانی کے ایک بڑے ذخیرے Ogallala aquifer کی سطح ہر سال تقریباً تین فٹ کم ہورہی ہے۔ بارشیں اور دریاؤں سے رسنے والا پانی ، زیر زمین ذخائر کو پانی فراہم کرتاہے ، لیکن ارضیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین سے اتنی بڑی مقدار میں پانی پمپ کیا جارہاہےکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کمی کرنے کے قدرتی ذرائع ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے جہاں شہری اور آب پاشی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زمین سے پمپ کیے جانے والے پانی کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ جس کے نتیجے میں ملک کے کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے اور وہاں پانی نکالنے کے لیے زیادہ گہرائی تک کھدائی کرنی پڑرہی ہے اور زیادہ طاقت کے پمپ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کئی ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں چند عشرے قبل زیر زمین پانی کی سطح اتنی بلند تھی کہ سیم اور تھور جیسے مسائل پیداہوگئے تھے جن پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سینکڑوں میل لمبے سیم نالے تعمیر کرنے پڑے تھے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سمندر کی سطح میں سالانہ 3.1 ملی میٹر کا اضافہ ہورہاہے، جب کہ اس میں اعشاریہ8 ملی میٹر اضافے کا سبب زمین سے نکالا جانے والا پانی ہے۔ اگر اس مقدار کو کنٹرول کرلیاجائے تو مستقبل میں ساحلی علاقوں کو ایک متوقع تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔
نیدرلینڈز کیUtrecht یونیورسٹی کے ایک ماہر مارک بیرکنس کا کہنا ہے کہ اعدادوشمار کے مطابق سمندر کی سطح میں3.1 ملی میٹرسالانہ اضافے کے نصف کاسبب کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے جب کہ ایک ملی میٹرسے ذرا کم اضافے کی وجہ زمین سے نکالا جانے والا پانی ہے اور باقی کا سبب پہاڑوں پر سے برف کا زیادہ پگھلاؤ ہے۔
ارضیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی۔ زمین سے زیادہ مقدار میں پانی نکالنے کا اثر صرف کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہتا کیونکہ کسی ایک مقام پر زیر زمین پانی کی سطح میں زیادہ کمی آس پاس کے علاقوں کو بھی متاثر کرتی ہے کیونکہ اردگرد کے علاقوں کا پانی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بڑھتا ہے۔ اور پھر رفتہ رفتہ ایک بڑا علاقہ زیر زمین پانی کی شدید کمی شکار ہوجاتا ہے۔ ایسی علاقے بھی موجود ہیں جہاں پانی کی سطح اس حد تک گرچکی ہے کہ انہیں پمپ کرنا ممکن نہیں رہا۔