برف کا رنگ سفید ہوتا ہے اور دھوپ میں پہاڑوں پر جمی ہوئی برف چاندی کی طرح چمکتی ہے۔ لیکن جب سے کرہ ارض گرم ہونا شروع ہوا ہے، دنیا میں بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ اب حال ہی میں اٹلی والوں نے یہ منظر دیکھا کہ پریسنا گلیشیئر کی اجلی سفید رنگت گلابی ہو گئی ہے۔
برف کے رنگ کی تبدیلی نے اٹلی والوں کو صرف حیران ہی نہیں بلکہ تشویش میں بھی مبتلا کر دیا، خاص طور پر اس لیے بھی کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا بھی پھیلی ہوئی ہے۔
تاہم، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ برف کی رنگت میں تبدیلی پریشانی کی بات نہیں ہے، کیونکہ یہ رنگت برف کی نہیں بلکہ اس پر جمنے والی کائی کی ہے۔
کائی کی ایک قسم گلابی رنگ کی بھی ہوتی ہے، جو منظر کو دلکش بنا دیتی ہے۔ اگر اسے فضا سے دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے برف پر گلابی پھول بکھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت یہ منظر اٹلی کے پریسنا گلیشیئر کے شمالی حصے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ماحولیات سے متعلق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسم بہار اور گرمیوں میں بعض اوقات برف پر گلابی کائی کا نمودار ہونا خلاف معمول نہیں ہے۔ ایسے واقعات گاہے گاہے رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن اگر یہ معمول بن جائے تو صورت حال تشویش ناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔
اٹلی کی نیشنل ریسرچ کونسل کے انسٹی ٹیوٹ آف پولر سائنسر کے ایک سائنس دان بیگیو ڈی مارو نے گلیشیئر پر اس پراسرار کائی کے نمودار ہونے کے بعد وہاں کا دورہ کیا اور سائنسی شواہد اکھٹے کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ برف پر گلابی کائی اگنے کا عمل بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے متعلق معلومات بھی نسبتاً کم ہیں۔ دراصل یہ تیزی سے گلیشیئر اور برف پگھلنے کا ردعمل ہے۔
اس بارے میں منظر عام پر آنے والی تصاویر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سفید گلیشیئر پر گلابی پھولوں کی فصل اگ آئی ہے۔
ڈی مارو نے ٹوئٹر پر اس بارے میں کہا ہے کہ گلیشیئر پر نمودار ہونے والی گلابی کائی، اصل میں برف کی کائی ہے، گلیشیئر کی نہیں۔ سن 2018 میں سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ برف پر کائی اگنے کی وجہ کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافہ ہے۔
ڈی مارو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کائی خطرناک نہیں ہوتی۔ وہ موسم بہار اور گرما میں ایک فطری عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔
گلابی کائی دیکھنے میں چاہے بھلی لگتی ہو، مگر اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ یہ برف کے پگھلنے کے عمل کو تیز کرتی ہے۔ جو ان علاقوں کے لیے نقصان دہ ہے جہاں پہلے ہی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، اور درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
عموماً ان پہاروں پر، جہاں برف اور گلیشیئر ہوں، وہاں درجہ حرارت کم رہتا ہے کیونکہ برف سورج کی زیادہ تر روشنی اور حرارت منعکس کر دیتی ہے۔ لیکن جب وہاں کائی اگ آئے تو وہ حرارت کو جذب کرنا شروع کر دیتی ہے جس سے برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے۔
سائنس دان ڈی مارو کہتے ہیں برف پر موجود ہر وہ چیز جس کی رنگت گہری ہو، سورج کی حرارت کو جذب کرنے کے عمل کو تیز کرتی ہے۔
کائی ایک جاندار چیزہے جسے نشوونما اور بڑھوتری کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ برف پگھلنے سے جو پانی پیدا ہوتا ہے وہ کائی کے تیزی سے پھیلاؤ میں مدد دیتا ہے۔
دوسری جانب مئی میں سائنس دانوں نے انٹارکٹیکا میں گلیشیئرز کو سفید سے سبز ہوتے دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ گلیشیئر پگھلنے کی رفتار تیز ہونے سے وہاں کائی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔
جیسے جیسے برف پگھلے گی، کائی کی مقدار میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اور اگر پگھلاؤ کا یہ عمل جاری رہا تو آنے والے برسوں میں قطبی علاقے سفید کی بجائے سبز دکھائی دیں گے۔