دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے گروپ ’جی سیون‘ کے رہنماؤں کا سربراہ اجلاس پیر کو دوسرے روز بھی جرمنی میں جاری رہے گا، جس کا محور ماحولیاتی مسائل، توانائی کے معاملات اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں سے بات چیت ہو گی۔
اتوار کو سربراہ اجلاس سے قبل صدر براک اوباما اور جرمن چانسلر اینجیلا مرخیل نے آپس میں بات چیت کی،جس کے بار ے میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ ماسکو کس طرح یوکرین میں عارضی جنگ بندی کا نفاذ کرتا ہے۔
چانسلر مرخیل نے جرمنی کے نشریاتی ادارے 'اے آر ڈی' کو بتایا کہ ’’ماسکو یوکرین میں اپنی مبینہ کارروائیوں کی وجہ سے ’جی 7‘ ممالک کی تنظیم سے دور رہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال ایک رکاوٹ موجود ہے اور مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا کہ اس کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے‘‘۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو مسلسل دوسرے سال بھی اس سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ انہیں پہلی بار اس وقت اجلاس سے دور رکھا گیا جب روس نے یوکرین کے علاقے کرائمیا کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔
یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈٹسک نے اتوار کو کہا کہ یورپی یونین اور ’جی 7 ‘ رہنما روس نواز علیحدگی پنسدوں کے خلاف جنگ میں یوکرین کا ساتھ دینے کے عزم پر قائم ہیں۔
مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ماسکو مشرقی یوکرین میں باغیوں کی حمایت کر رہا ہے جب کہ روس اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
عارضی جنگ بندی جس پر روس، یوکرین، فرانس اور جرمنی نے دستخط کیے تھے کے تحت دونوں فریقوں نے اگلے مورچوں سے بھاری ہتھیار واپس لانے تھے تاہم ان شرائط کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
اس سربراہ اجلاس کا سرکاری ایجنڈا تجارت ہے تاہم عالمی رہنماؤں کو یونان کی طرف سے قرض دہندگان سے نئی اقتصادی مراعات حاصل کرنے کی تازہ ترین کوششوں سمیت کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
یونان کی طرف سے یہ کوشش رواں سال جون کے اواخر تک قرض کی ادائیگی نہ کرنے کے اقدام سے بچنے کی ایک کوشش ہے۔
ہفتے کو ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین جس میں سرمایہ داری نظام کے مخالفین، امن کے سرگرم کارکن اور سیاہ پوش حکومت مخالف افراد شامل تھے گارمش پارتن کرچینان کے قصبے کے قریب جمع ہوئے، جہاں سربراہی اجلاس ہو رہا ہے۔
مظاہرین کی تعداد 4,000 سے5,000 تھی جبکہ اس کے مقابلے میں تقریباً 20,000 سیکورٹی اہلکار موجود تھے۔
دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے گروپ ’جی 7‘ میں امریکہ، جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں۔