گیتا بھارتی شہری ہے۔ لیکن، 12سال سے بھی زیادہ مدت سے پاکستان میں مقیم ہے۔ اسے اپنا اصل نام یاد نہیں۔ شہر، گاوٴں، ریاست حتیٰ کہ۔۔ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کا نام تک بھول چکی ہے۔ وہ صرف اشاروں میں بات کرتی ہے کیوں کہ وہ نہ سن سکتی ہے اور نہ ہی بول سکتی ہے۔ البتہ، اسے اپنی زبان میں لکھنا آتا ہے۔
’ایدھی ہوم‘ میں اس کے ساتھ رہنے والے تمام افراد کا کہنا ہے کہ یہ ہندی رسم الخط ہے۔
عالمی شہرت رکھنے والے پاکستان کے رفاعی ادارے ’ایدھی ٹرسٹ‘ کی روح رواں، بلقیس ایدھی کہتی ہیں: ’گیتا ۔۔میرے پاس اس کے اندیکھے والدین کی امانت ہے۔ وائس آف امریکہ دیکھنے، سنے اور پڑھنے والے ہر فرد سے میری گزارش ہے کہ نیک نیتی کی بنیاد پر اس امانت کو والدین تک پہنچانے میں میری ہر ممکن مدد کریں‘۔
گیتا اور بلقیس ایدھی میں ماں اور بیٹی کا رشتہ ہے۔ گیتا بہت چھوٹی عمر کی تھی جب انہیں ملی۔ اس لئے وہ گیتا کی ہر عادت، ہر اشارے اور ہر نظر کا مفہوم سمجھتی ہیں۔ انہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کو گیتا سے متعلق تمام باتیں بتائیں، انہی کی بنیاد پر زیرنظر رپورٹ تحریر کی گئی ہے۔
بلقیس ایدھی کے بقول:
بارہ برس پہلے کی بات ہے۔ گیتا غالباً اپنے گھروالوں سے کسی بات پر ناراض ہوکر لاعلمی میں پاکستان آنے والی ٹرین میں بیٹھ گئی ہوگی۔ ہو سکتا ہے وہ کسی سرحدی گاوٴں سے اس ٹرین میں چڑھی ہو۔ ٹرین تو لاہور آکر اپنی منزل کو پہنچی لیکن گیتا کو اپنی منزل اب تک نہیں مل سکی ہے۔
گیتا سے جب بھی اشاروں میں اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ اپنے والد کے بارے میں بتاتی ہے کہ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں، والدہ بہت خوب صورت ہیں۔ اس کی دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ وہ ٹرین میں بیٹھ کر لاہور پہنچی تو پولیس نے اسے پکڑ لیا اور ایدھی ہوم لاہور کی انتظامیہ کے حوالے کردیا۔
بلقیس ایدھی کہتی ہیں کہ، انہوں نے اس لڑکی کا ابتدائی نام فاطمہ رکھا تھا لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ لڑکی پیرچھوتی اور مٹی ماتھے پر لگاتی اور سب کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتی ہے، تو انہیں یقین ہوگیا کہ اس کا تعلق بھارت کے کسی علاقے سے ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں، ’مجھے لگتا ہے کہ یہ پڑھے لکھے اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسکول جاتی ہوگی، کیوں کہ آج بھی کاپی میں اپنی زبان میں کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی ہے۔ ہم نے بہت سے لوگوں کو اس کی تحریریں دکھائیں کہ شاید کوئی پڑھ کر اس کے بارے میں کچھ جان سکے۔ لیکن کسی کی بھی سمجھ میں یہ زبان نہیں آئی۔‘
سماجی کارکن بلقیس ایدھی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’شروع شروع میں اسے خاص خاص تہواروں پر مندر لے جاتی تھی جہاں جاکر وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ دل لگا کر پوجا پاٹھ کرتی تھی۔ لیکن سیکورٹی اور رش کے باعث روز روز مندر نہیں جایا جا سکتا تھا۔ اس لئے، میں نے اس کے کمرے میں ہی ایک مندر بنا کر دے دیا ہے۔ ہم نے کبھی بھی اس کے مذہبی عقائد پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ نہ ہی اسے کسی چیز سے روکا۔ ہم کسی کا مذہب تبدیل کرنے والے یا اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں۔‘
’دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ’رام‘ اور ’رحیم‘ دونوں کو خوش رکھتی ہے۔ پوجا کے ساتھ ساتھ نماز بھی پڑھتی ہے۔ رمضان کے پورے روزے رکھتی ہے۔ اور جائے نماز پر بیٹھ کر گھنٹوں روتی ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ کسی اچھے ہندوٴ لڑکے سے اس کی شادی کردوں۔ لیکن، یہ شادی نہیں کرنا چاہتی۔ جب بھی پوچھو انکار کردیتی ہے۔ اسے صرف یہ آرزو ہے کہ جہاز میں بیٹھ کر اپنے ملک، اپنے خاندان میں واپس چلی جاوٴں۔ میں مذاق میں اکثر اس سے پوچھتی ہوں کہ آئی تو تو ٹرین میں تھی۔۔جانا جہاز میں چاہتی ہے۔۔تیرا باپ بہت امیر ہے کیا۔۔۔‘
’گیتا ہر رات ڈیڑھ دو گھنٹے میرے پاس بیٹھتی ہے۔ وہ اپنا سارا کام خود کرتی ہے۔ کھانا پکانا، سینا پرونا، استری کرنا، جھاڑو دینا۔۔۔اور سب سے منفرد خوبی یہ کہ وہ شادی بیاہ کی کوئی بھی تقریب ہو وہ بہت اچھا ناچتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کسی نے باقاعدہ اسے تربیت دی ہو۔ لیکن، 12 سال سے تو یہ یہیں ہے۔ کس سے سیکھتی۔‘
’گیتا کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لئے ہم نے ماضی میں بھارتی قونصل جنرل اور دیگر سفارتی حکام سے رابطہ بھی کیا، یہاں تک کہ انڈین وفد نے ایدھی ہوم کا بھی باقاعدہ اس غرض سے دورہ کیا۔ لیکن، بھارتی عہدیداروں کی کوششوں کے باوجود، گیتا کے گھروالوں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ یہ یہاں بہت خوش ہے، اس نے کبھی یہاں سے کہیں اور بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن، پھر بھی ہم لوگوں کی ہر طرح سے یہ کوشش ہے کہ کسی طرح یہ اپنے خاندان والوں سے جا ملے۔‘
’گھروالوں کا پتہ چل گیا تو میں خود اسے لیکر انڈیا جاوٴں گی۔ اسے خوب سارا زیور، کپڑے اور دیگر چیزیں دلواوٴں گی۔ اب تک بہت سے پاکستانی ہندووٴں اور ہندو تنظیموں نے گیتا کو ہم سے مانگا ہے۔ لیکن، میں اسے کسی کو بھی اور کیوں حوالے کروں۔ یہ میری بچی کی طرح ہے۔ سب بچیاں مجھے ’ماں‘ کہہ کر پکارتی ہیں۔ میں بھی سب کو اپنی بچیوں کی طرح ہی رکھتی ہوں۔ لیکن گیتا چونکہ بول اور سن نہیں سکتی اس لئے میری توجہ اس پر زیادہ رہتی ہے۔‘
’اس دنیا کی سب سے انمول چیز انسان ہے۔ کوئی انمول چیز نظر سے کتنی ہی اوجھل کیوں نہ ہوجائے، یاد ہمیشہ رہتی ہے۔ گیتا کو اس کے والدین آج بھی بہت یاد آتے ہیں اور یقیناً والدین بھی گیتا کو نہیں بھولے ہوں گے۔ وہ بھارت میں پیدا ہوئی۔ لیکن، پلی بڑھی پاکستان میں ہے۔ وہ ایک امانت ہے۔۔اور یہ امانت ہم نے ایک دن ضرور اس کے ورثاء کے حوالے کرنی ہے۔‘