بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں جمعے کو دوسرے روز بھی بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج ہوا۔ جس دوران تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے، تاجروں اور شہریوں دوسرے روز بھی لیویز تھانے کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا اور ٹرانسپورٹرز اپنی بسیں اور گاڑیاں سڑکوں پر نہیں لائے۔
گوادر کے ایک صحافی نور محسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان کے تمام ساحلی علاقے ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ آبادی کے اس شہر کو چوبیس گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے، جس سے شہر اور نواحی علاقوں کے لوگ اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔
بجلی کی طویل وقفوں کی بندش سے پریشان شہری گزشتہ کئی دنوں سے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ اور ایکشن کمیٹی کی مشترکہ ریلی میں شریک 40 سے زائد مظاہرین نے لیویز کے تھانے میں اپنی احتجاجی گرفتاری بھی پیش کی۔ تاہم انہیں حراست میں نہیں لیا گیا۔
علاقے میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے کیسکو کے ترجمان محمد افضل نے بتایا ہے کہ گرمیوں میں ایران 100 میگاواٹ کی بجائے صبح 11 سے شام 6 بجے تک 40 سے 50 میگاواٹ بجلی مہیا کرتا ہے جس کی وجہ سے لوڈمینجمنٹ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا ایرانی انتظامیہ کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے اور انہوں نے دن کے اوقات میں 65 میگا واٹ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جس کے بعد گوادر میں روزانہ 16 گھنٹے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
بلوچستان کے تمام ساحلی قصبے اور شہر بجلی کے قومی نظام یا گرڈ سے منسلک نہیں ہیں بلکہ انہیں ایک معاہدے کے تحت ایران 100 میگاواٹ بجلی فراہم کرتا ہے، تاہم گرمیوں میں اس کی فراہمی گھٹ جاتی ہے۔
بلوچستان کے دو شہروں حب میں 1200 میگاواٹ اور اوچ پاور اسٹیشن جعفرآباد میں 2000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن گرمیوں میں ان کی پیداوار نصف سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ مگر یہ بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کر دی جاتا ہے۔
کیسکو کے مطابق بلوچستان کی بجلی کی کل طلب 1500 میگاواٹ کے لگ بھگ ہے لیکن گرمیوں میں صوبے کو 550 میگاواٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں روزانہ 8 اور نواحی علاقوں میں 12 گھنٹوں کی لود شیڈنگ کرنی پڑتی ہے، جب کہ صوبے کے دیگر اضلاع کو صرف پانچ یا چھ گھنٹوں کے لیے بجلی ملتی ہے۔