اسلام آباد —
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کی بندرگاہ کا انتظام گزشتہ ہفتے چین کی ایک سرکاری کمپنی کو سونپا گیا تھا، جس کے بعد سے اس فیصلے کے ملکی معیشت پر ممکنہ اثرات کا معاملہ مختلف حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں بھی ایسے ہی سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اور حکمران پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ گوادر بندرگاہ کا انتظام چین کو دینے سے ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ترقی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ اس بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کو دنیا بھر خصوصاً وسط ایشیائی ملکوں تک اپنی تجارت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی جب کہ چین کے تعاون سے اہم شاہرایں اور بنیادی ڈھانچے کو وسعت دی جائے گی۔
خورشید شاہ نے ایک ضمنی سوال کے جواب میں کہا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق تمام ضروری کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہی گوادر کی بندرگاہ کا کنٹرول چین کو دیا گیا ہے۔
تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کئی سال قبل مکمل ہو گئی تھی لیکن اس پر تجارتی سرگرمیاں شروع نا ہو سکیں، تاہم وہ پر امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ بندرگاہ پاکستان خصوصاً بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
گوادر کی بندرگاہ 2007ء میں 25 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مکمل کی گئی تھی جس کے لیے 80 فیصد سرمایہ چین نے فراہم کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ایوان صدر میں ایک باضابطہ تقریب میں گوادر بندرگاہ کا کنڑول چین کو سونپنے کی دستاویز پر دستخط کیے گئے تھے۔
بلوچستان کی بعض قوم پرست جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بلوچ عوام کی ترقی کا سبب بنے گا۔
چین اپنے استعمال کا ساٹھ فیصد خام تیل مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے خریدتا ہے، چین کی اقتصادی ترقی کو دیکھتے ہوئے آئندہ سالوں میں اس تیل کی درآمدات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ چین تیل کی درآمد کے لیے اسی بندرگاہ کو استعمال کرے گا۔
پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں بھی ایسے ہی سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اور حکمران پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ گوادر بندرگاہ کا انتظام چین کو دینے سے ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ترقی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ اس بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کو دنیا بھر خصوصاً وسط ایشیائی ملکوں تک اپنی تجارت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی جب کہ چین کے تعاون سے اہم شاہرایں اور بنیادی ڈھانچے کو وسعت دی جائے گی۔
خورشید شاہ نے ایک ضمنی سوال کے جواب میں کہا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق تمام ضروری کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہی گوادر کی بندرگاہ کا کنٹرول چین کو دیا گیا ہے۔
تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کئی سال قبل مکمل ہو گئی تھی لیکن اس پر تجارتی سرگرمیاں شروع نا ہو سکیں، تاہم وہ پر امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ بندرگاہ پاکستان خصوصاً بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
گوادر کی بندرگاہ 2007ء میں 25 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مکمل کی گئی تھی جس کے لیے 80 فیصد سرمایہ چین نے فراہم کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ایوان صدر میں ایک باضابطہ تقریب میں گوادر بندرگاہ کا کنڑول چین کو سونپنے کی دستاویز پر دستخط کیے گئے تھے۔
بلوچستان کی بعض قوم پرست جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بلوچ عوام کی ترقی کا سبب بنے گا۔
چین اپنے استعمال کا ساٹھ فیصد خام تیل مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے خریدتا ہے، چین کی اقتصادی ترقی کو دیکھتے ہوئے آئندہ سالوں میں اس تیل کی درآمدات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ چین تیل کی درآمد کے لیے اسی بندرگاہ کو استعمال کرے گا۔