رسائی کے لنکس

جی ایٹ سربراہ کانفرنس میں متنازعہ امور پر گفتگو کا امکان


جی ایٹ سربراہ کانفرنس میں متنازعہ امور پر گفتگو کا امکان
جی ایٹ سربراہ کانفرنس میں متنازعہ امور پر گفتگو کا امکان

دنیا کی آٹھ بڑی اقتصادی طاقتوں کے سربراہ جی ایٹ اجلاس کے لیئے آج فرانس میں جمع ہو رہے ہیں۔۔ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ کانفرنس میں عرب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور عالمی معیشت کی غیر یقینی صورتحال کو موضوع بنایا جائے گا۔۔ تاہم معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تنظیم کے راہنماؤں کا مختلف نقطہ نظر اختلاف کا باعث بن سکتاہے۔اس کےساتھ ساتھ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی صورتحال بھی اجلاس میں زیر بحث آسکتی ہے۔

فرانس کے ساحلی شہر دیول ٕمیں ہونے والے جی ایٹ ممالک کے سربراہی اجلاس میں بحث کے لئے ایک بھر پور ایجنڈا ہے جس میں سرفہرست یہ سوال ہے کہ عرب دنیا میں سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں کس طرح کا ردعمل دکھایا جائے۔نیٹو لیبیا میں معمر قدافی کے خلاف فوجی کارروائی کر رہا ہے اور اب کچھ ممالک میں اس لڑائی کے وسیع ہونے اور مقاصد کے واضح نہ ہونے کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ لندن سکول آف اکنامکس میں بین الاقوامی امور کی ماہر سٹفنی رککارڈکہتی ہیں کہ روس کی جانب سے مخالفت کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کانفرنس میں روس کے ساتھ کچھ اختلاف ابھرنے کا خدشہ ہے۔ روس نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ لیبیا میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے حمایت نہیں کرتا اور وہ نہیں سمجھتا کہ وہاں مداخلت مسلے کا حل ہے۔ اس لئے روس اور جی ایٹ کے کچھ ممالک کے درمیان اختلافات آئیں گے۔مگر ممکن ہے کہ یہ اختلافات بند کمروں میں ہونے والے اجلاسوں تک ہی محدود رہیں ۔

اس ماہ کے شروع میں پاکستان میں القاعدہ کے رہنما اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کے پس منظر میں اجلاس کے دوران پاکستان کے حالات بھی زیر غور آئیں گے۔

اس کے علاوہ مغربی رہنما اس خدشے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ افغانستان کا مسلہ عرب دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کے باعث پس منظر میں جاسکتا ہے۔

اجلاس میں شام اور بحرین میں مظاہرین کو کچلنے کے لئے وہاں تشدد کے واقعات کے بارے میں بات ہوگی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سوال پر پر بھی اختلافات سامنے آسکتے ہیں کہ باہر کی دنیا کو ان معاملات سے کیسے نمٹنا چاہیے ۔ اجلاس سے پہلے برطانیہ کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے شام کی قیادت کو واضح طور پر متنبہ کیا تھا کہ صدر بشار الاسد کے پاس دو ہی راستے ہیں ۔ یا تو وہ جمہوری نظام کی طرف قدم اٹھا سکتے ہیں ۔ یا جیسے صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ راستے سے ہٹ جائیں۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انہوں نے جمہوری عمل کا آغاز نہیں کیا تو ان پر دباؤ بڑھتا رہے گا۔

جی ایٹ کے اجلاسوں میں ایک اور موضوع جس پر بات ہوتی ہے وہ ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ یورپی یونین نے ایران پر پابندیاں جاری رکھنے کی توثیق کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کہتے ہیں کہ ایران پر دباؤ جاری رکھنا چاہیے۔ ان کا کہناتھا کہ یہ اہم ہے کہ ہم یہ نہ بھولیں کہ جہاں ایک طرف مشرق وسطیٰ میں کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں دوسری طرف ایران اپنے جوہری پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔برطانیہ کئی ماہ سے پرامن طریقوں سے ایران پر دباؤ بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

جاپان میں زلزلے کے بعد جوہری پلانٹ کی تباہی کا معاملہ بھی اجلاس میں اٹھایا جائے گا ۔ فرانس کی جانب سےجوہری پلانٹس میں نئے حفاظتی انتظامات کا مطالبہ بھی سامنے آ چکا ہے۔

جاپان کا معاشی بحران کی طرف لوٹنا اور یورپ میں قرضوں کے بحران کے اثرات کی وجہ سے عالمی معیشت میں بہتری قدرے سست ہے۔

اور اب عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے سربراہ پر زیادتی کے الزامات کے بعدان کا عہدے سے مستعفی ہونا ، اس نے صورتحال کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ مگر سٹفنی رککارڈ کہتی ہیں کہ راہنماؤں کے ایجنڈے میں یہ معاملات بالکل آخر میں ہونگے۔

ان کا کہناتھا کہ یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ 2009میں ہونے والے جی ایٹ اجلاس میں خاص طور پر کہا گیا تھا کہ عالمی معاشی مسائل پر G20میں بحث ہوا کرے گی۔تو اب یہ معاملات G20کے حوالے کر دیئے گئے ہیں اور جی ایٹ میں صرف سکیورٹی اور عالمی سیاسی معاملات ہی زیر بحث آئیں گے۔

اس ساحلی شہر میں جی ایٹ رہنماؤں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ وہ اس کے تفریحی مقامات سے لطف اندوز ہوسکیں۔

XS
SM
MD
LG