امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جی سیون سربراہ اجلاس کم از کم ستمبر کے آخر تک کے لئی ملتوی کر دیا ہے۔ اس سال کے لیے اس اجلاس کی میزبانی امریکہ کے حصے میں آئی تھی۔
صدر ٹرمپ یہ اجلاس جون کے آخر میں وائٹ ہاؤس میں کرنا چاہتے تھے۔ جس سے دنیا کو یہ تاثر بھی ملتا کہ کرونا کی وبا کے بعد اب امریکہ میں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ لیکن جرمن چانسلر آنگلا مرخیل نے کرونا کی وبا کے پیش نظر اس اجلاس میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس اجلاس میں روس، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور بھارت کو بھی مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اپنے صدارتی طیارے ایئر فورس ون پر انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ جی سیون گروپ اس کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتا ہے جو اس وقت دنیا میں ہو رہا ہے۔ اور یہ اب ملکوں کا ایک از کار رفتہ گروپ بن گیا ہے۔
خیال رہے کہ 2014 تک روس کو بھی اس کے اجلاسوں میں مدعو کیا جاتا تھا، لیکن پھر کرائمیا پر اس کے قبضے کی پاداش میں اسے مدعو کرنے کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔
صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے بارے میں ماہرین کی آرا مختلف ہیں۔
ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار شاہد جاوید برکی نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر زمینی حقائق کو پیش نظر نہیں رکھتے اور اس طرح دنیا سے کٹ کر نہیں رہا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کے سبب آج دنیا کے جو مالی اور معاشی معاملات ہیں، ان میں جی سیون اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن اس میں امریکہ کا فعال کردار ہونا چاہئیے، کیونکہ اس کی معیشت سب سے بڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ گروپ ماضی کا قصہ بن گیا ہے کیونکہ وہ پہلے بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے کام کرتے تھے اور وہ اب بھی اپنے کام کو اسی طرح جاری رکھ سکتے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی میں مالیات اور انٹرنیشنل مارکٹینگ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی یہ بات تو کسی حد تک درست ہے کہ یہ گروپ از کار رفتہ ہو چکا ہے کیونکہ یہ گروپ اب سے کوئی 45 برس قبل اس وقت کے بڑے بڑے مالی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے، جو اس وقت دنیا کو درپیش تھے، وجود میں لایا گیا تھا۔ آج دنیا کے معاشی معاملات اس وقت سے بالکل مختلف ہیں۔ اس وقت چین ایک اقتصادی قوت کی حیثیت سے نہیں ابھرا تھا۔ اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں اتنے معاشی بلاک نہیں بنے تھے جتنے آج ہیں۔ 45 برس میں دنیا بالکل بدل چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج یورپ اور امریکہ میں چین کی مخالفت ہے اور اس کے خلاف کوئی محاذ وجود میں آنا ہے۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے یہ اقدام کر کے ذہانت کے ساتھ امریکہ کے رول اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اور بھارت کو مدعو کرنے کا عندیہ دے کر ایک طرح سے چین کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ جی سیون گروپ کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔