ایک وقت تھا کہ پاکستان میں فوجی آمروں اورسول حکمرانوں کو آزادی صحافت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن ملک کے سینئر صحافیوں کا خیال ہے کہ 2012ء میں ملکی صحافت کو لاحق سب سے بڑا خطرہ حکمران طبقہ نہیں بلکہ پریشر گروپ اور مافیائیں ہیں۔
عالمی یومِ صحافت کے موقع پر جمعرات کو کراچی پریس کلب کے زیرِ اہتمام منعقدہ مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے بڑھتے ہوئے 'کمرشل ازم' کو بھی صحافت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا جب کہ خود صحافیوں کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ وارانہ رویوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے سربراہ اور کالم نگار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ آزادی اظہارِ رائے کی طرح نجی زندگی میں عدم مداخلت بھی عوام کا بنیادی حق ہے جس کا صحافیوں کو احترام کرنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ پریس کی آزادی، فرد کی آزادی سے منسلک ہے۔ پروفیسر توصیف کے بقول صحافی خود بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس سے خبر کی حرمت پامال ہورہی ہے۔ انہوں نے ملک میں ہتکِ عزت کے قانون کو مزید سخت بنانے اور اس کے موثر نفاذ پر زور دیا۔
پروفیسرتوصیف کی رائے میں پاکستانی صحافت پر پولیس، حساس اداروں، فوج، لسانی اور سیاسی تنظیموں اور مافیاز کے ساتھ ساتھ ابلاغی اداروں کا مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ بھی اثر انداز ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آزادی صحافت کو یقینی بنانے کے لیے ان سفارشات پر عمل درآمد ضروری ہے جو اسلام آباد کے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے پیش کی تھیں ۔
واضح رہے کہ عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت سے ملک میں خفیہ اداروں کے احتساب کا نظام وضع کرنے، ان کے دائرہ کار کے بارے میں قانون سازی اور ان کی نگرانی کا پارلیمانی نظام وضع کرنے کی سفارش کی تھی۔
صحافتی حلقوں نے سلیم شہزاد کے قتل میں پاکستانی فوج کے خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا لیکن کمیشن کئی ماہ کی تحقیقات کے باوجود ان کے قاتلوں کے تعین میں ناکام رہا تھا۔
مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے انگریزی اخبار 'دی نیوز' کراچی کے مدیر عامر ضیانے پاکستان میں آزادی صحافت کو تیکنیکی ترقی، صحافیوں کی جدوجہد اور ریاستی رویوں کی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیا۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آزادی صحافت کی موجودہ صورتِ حال اطمینان بخش نہیں ہے اور خطرات بدستور موجود ہیں جنہوں نے اپنی شکل تبدیل کرلی ہے۔
عامر ضیا نے کہا کہ ماضی میں مقتدر قوتیں اخبارات کی سرخیاں تبدیل کراتی تھیں جب کہ اب حقائق تبدیل کراکے 'ڈِس انفارمیشن' پھیلائی جاتی ہے۔
انہوں نے صحافت میں 'کمرشل ازم' کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو ادارہ اشتہار دیتا ہے بیشتر ذرائع ابلاغ اس کے معاملات کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود صحافی بن چکا ہے جو خبر اور تبصرے کا فرق ملحوظ نہیں رکھتا۔ ان کے بقول موجودہ صحافت میں شفافیت کا فقدان ہے اور پیشہ ورانہ اہلیت اور معروضیت سے روگردانی کی جارہی ہے۔
اردو روزنامے 'نئی بات' کے مدیر مقصود یوسفی نے صحافی کی معاشرتی ذمہ داریوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم آزاد ہے لیکن کئی دہائیوں کے باوجود قوم کے افراد میں آزادی کا شعور اجاگر نہیں ہوسکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فرد کے شعور کو اجاگر کرنا صحافی کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے صحافت میں 'کمرشل ازم' کے بڑھتے ہوئے کردار اور 'کارپوریٹ سیکٹر' کی اثر پذیری کو آزادی صحافت کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو اس سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
مقصود یوسفی نے ذرائع ابلاغ کے نگران ادارے 'پاکستان پریس کونسل' کی تشکیلِ نو کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کونسل میں حکومت کے نامزد اراکین کے بجائے آزاد اور غیر جانب دار افراد کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے 'پاکستان پریس کونسل' کے سربراہ راجہ شفقت عباسی نے کہا کہ انہیں موصول ہونے والی بیشتر شکایات اور تحفظات الیکٹرانک میڈیا سے متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور اس کے معاملات پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن ریاست کی بنیادوں کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
شفقت عباسی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو اپنامحتسب خود ہی بننا ہوگا اور عالمی طور پر تسلیم شدہ صحافتی معیارات از خود نافذ کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ 19 اے کے تحت ہر فرد کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
مذاکرے کے شرکا اس بات پر متفق نظر آئے کہ کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کو ناپنے کا پیمانہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے جو جمہوری معاشرے میں عوام کو حاصل دیگر تمام بنیادی حقوق - بشمول معاشی، سیاسی، سماجی آزادیوں – کی ضامن ہے۔
سینئر صحافیوں کے بقول آزادی صحافت کی جدوجہد کا کوئی نقطہ اختتام نہیں ہے اور یہ جاری رہے گی۔