فرانس میں پولیس نے ایک مشتبہ انتہا پسند کے ہاتھوں اسکول کے ایک استاد کا سر قلم کیے جانے کے تین روز بعد شدت پسند نظریات رکھنے والی اسلامی تنظیموں اور غیر ملکی مشتبہ افراد کے خلاف چھاپے مارے ہیں۔
سینتالیس سالہ سموئیل پاٹی کو، جو اسکول میں تاریخ پڑھاتے تھے، پیرس کے مضافات میں واقع ایک مڈل اسکول کے باہر دن دیہاڑے ایک 18 سالہ نوجوان نے قتل کر دیا تھا۔
پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ مقتول کا تعلق چچنیا سے بتایا گیا ہے۔
قاتل نے اپنی دانست میں استاد سے انتقام لینے کا سوچا تھا، جس نے آزادی اظہار کی وضاحت کے لیے کلاس میں 13 سال کے بچوں کے سامنے پیغمبر اسلام کے خاکے پیش کیے تھے۔ مسلمانوں کے نزدیک اپنے پیغمبر کی شبیہہ بنانا توہین کے دائرے میں آتا ہے۔
عوامی شخصیات نے اس قتل کو جمہوریت اور فرانس کی روایات پر حملہ قرار دیا ہے۔
وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانین نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے نفرت پھیلانے کے سلسلے میں 80 تحقیقات کی جا رہی ہیں اور وہ اس بارے میں بھی غور کر رہے ہیں کہ آیا مسلم کمیونٹی کی 50 تنظیموں پر پابندی لگائی جانی چاہیے یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس حوالے سے کارروائیاں کر رہی ہے اور مزید کارروائیاں بھی کی جائیں گی۔
پولیس سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے اتوار کے روز کہا ہے فرانس 213 غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی تیاری کر رہا ہے جو حکومت کی نگرانی کی فہرست پر موجود ہیں اور جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کی سوچ اور نظریات شدت پسندانہ ہیں۔ ان میں سے تقریباً 150 جیل میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
پولیس نے اسکول کے استاد کے قتل کے بعد گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 10 افراد کو حراست میں لیا ہے۔
مدعی کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے جانے والوں میں مقتول استاد کے ایک شاگرد کا والد بھی شامل ہے۔ پولیس نے ایک اور شخص کو بھی حراست میں لیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے خاکوں کے واقعے کے بعد مقتول استاد کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی۔