پوپ فرینسس نے خدا کے نام پر کسی کی جان لینے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے آزادی اظہار کا دفاع کیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ دوسروں کے مذہب کی بے حرمتی یا ہتک نہیں کی جا سکتی۔
پوپ نے یہ بات جمعرات کے روز سری لنکا سے فلپائن پرواز کے دوران طیارے میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
اُنھوں نے یہ بات سخت گیر مسلمانوں کی طرف سے فرانس کے مزاحیہ جریدے، ’چارلی ہیبڈو‘ پر کیے گئے حملے کے حوالے سے کہی، جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ جریدہ اسلام اور دیگر مذاہب کے خلاف مزاحیہ خاکے چھاپنے کی شہرت رکھتا ہے۔
فرینسس نے آزادی اظہار کا دفاع کیا۔ تاہم،اُنھوں نے کہا کہ یہ بات غلط ہوگی کہ دیگر لوگوں کے مذاہب کی بے حرمتی کرکے اُنھیں اشتعال دلایا جائے، اور یہ کہ ایسے عمل کی صورت میں اِس رد عمل کا ’امکان‘ موجود ہوتا ہے۔
جمعرات کے دِن، اُنھوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ،’آپ کسی کو مشتعل نہیں کرسکتے، آپ دوسروں کے اعتقاد کی بے حرمتی نہیں کر سکتے، آپ مذہب کا مذاق نہیں اڑا سکتے‘۔
مثال دیتے ہوئے، پوپ نے البرٹو گساپری کا حوالہ دیا، جو پوپ کے دوروں کا انتظام کرتے ہیں، اور اُن کے ہمراہ کھڑے تھے۔
فرینسس کے بقول، ’اگر میرے دوست، ڈاکٹر گساپری میری ماں کے لیے کوئی نازیبا بات کہیں، تو اُنھیں یہ بات معلوم ہونا چاہیئے کہ اُنھیں گھونسہ رسید کیا جا سکتا ہے۔ یہ عام سی بات ہے۔ آپ اشعال نہیں دلا سکتے۔ آپ دوسروں کے اعتقاد کی بے حرمتی نہیں کر سکتے۔ آزادی اظہارکی حدود ہوتی ہیں‘۔
فرینسس، جو پیرس حملوں کی مذمت کرچکے ہیں، اُن سے آزادی مذہب اور آزادی اظہار کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
بقول اُن کے،’میرے خیال میں، آزادی مذہب اور آزادی اظہار دونوں بنیادی انسانی حقوق ہیں‘۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ خصوصی طور پر پیرس ہلاکتوں کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، اُنھوں نے کہا کہ ’ہر ایک کو نہ صرف آزادی اور حق حاصل ہے، بلکہ اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں کی فلاح کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔۔۔ کسی کی دل آزاری کیے بغیر، ہمیں اِس آزادی کا حق حاصل ہے‘۔
ماضی کی مذہبی جنگوں، مثلاً صلیبی جنگیں، کا حوالہ دیتے ہوئے، جِن کی اسلام کے خلاف کیتھولگ کلیسا نے اجازت دی تھی، پوپ نے کہا کہ،’آئیے ہم اپنی تاریخ پر غور کریں۔ ہم نے مذہب کے نام پر کتنی جنگیں لڑیں؟۔۔۔۔۔ لیکن، آپ خدا کے نام پر کسی کی جان نہیں لے سکتے۔ یہ سریح خطا کاری ہے‘۔