رسائی کے لنکس

عمان میں دہشت گردی: 'پاکستانیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دوسروں کو بچانے کے لیے دی'


مسقط میں امام بارگاہ علی بن ابی طالب پر داعش کے حملے کے بعد دھواں فضا میں بلند ہو رہا ہے۔
مسقط میں امام بارگاہ علی بن ابی طالب پر داعش کے حملے کے بعد دھواں فضا میں بلند ہو رہا ہے۔

  • عمان کے شہر مسقط میں رواں ہفتے دہشت گردی کے واقعے میں ہلاک چار میں سے ایک پاکستانی کی میت وطن واپس لائی گئی جنہیں وزیرِ آباد کے مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
  • ظالموں نے اس کے جسم کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا جہاں گولی نہ ماری ہو، مقتول کے چچا کی وائس آف امریکہ سے گفتگو
  • مسقط میں پیر کو امام بارگاہ پر ہونے والے حملے میں چار پاکستانیوں سمیت نو افراد ہلاک اور 30 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
  • داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے واقعے کی ویڈیو بھی جاری کی تھی۔
  • داعش کے حملے سے دنیا ایک بار پھر چونک گئی ہے، تجزیہ کار محمد خالد جذبی

"کوئی یقین ہی نہیں کرسکتا تھا کہ عمان جیسے پرامن ملک میں بھی دہشت گردی ہو سکتی ہے۔ سلمان دو بھتیجوں کو بچانے کے لیے انہیں سینے کے ساتھ لگا کر ادھر ادھر بھاگا لیکن علاقے میں نیا ہونے کی وجہ سے اسے راستے کا علم نہیں تھا۔ ظالموں نے اس کے جسم کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا جہاں گولی نہ ماری ہو۔"

یہ کہنا ہے وسطی پنجاب کے شہر وزیر آباد کے رہائشی نیاز احمد کا جن کا جواں سال بھتیجا سلمان نیاز رواں ہفتے عمان کے دارالحکومت مسقط میں امام بارگاہ علی بن ابی طالب میں دہشت گردی کے واقعے میں ہلاک ہوا۔

عالمی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) نے حملے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں چار پاکستانیوں سمیت نو افراد ہلاک اور 30 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

داعش نے ٹیلی گرام سائٹ پر حملے کی ویڈیو بھی جاری کی ہے اور ایک بیان کہا ہے کہ اس کے تین خودکش حملہ آوروں نے فائرنگ کی اور صبح تک ان کا عمانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلہ جاری رہا۔

داعش کے حملے میں ہلاک ہونے والے چار پاکستانیوں میں سلمان نیاز کے علاوہ غلام عباس، حسن عباس اور سید قیصر عباس شامل ہیں۔

مقتول سلمان کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر وزیر آباد سے تھا اور وہ اپنے دو بھتیجوں اور بھابی کے ہمراہ مجلس سننے کے لیے امام بارگاہ علی بن ابی طالب گئے تھے۔

مقتول سلمان کی میت جمعرات کی شب وطن واپس لائی گئی جس کے بعد میت کو سہرا پہنا کر جنازہ گاہ لایا گیا۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ ان کے خاندان میں رسم ہے کہ جب کوئی جواں سال نوجوان انتقال کر جائے تو اسے سہرا پہنا کر جنازہ گاہ لایا جاتا ہے۔

مقتول سلمان نیاز
مقتول سلمان نیاز

مقتول سلمان دو ماہ قبل ملازمت کے لیے مسقط گئے تھے اور وہ ایک نجی کمپنی میں فورمین کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔

مقتول کے چچا نیاز احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا "ہمیں اپنے بھتیجے کی جرات پر فخر ہے لیکن اس کے بچھڑ جانے کا صدمہ بھی ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے بزدلی دکھائی۔ سلمان نے برستی ہوئی گولیوں میں معصوم بچوں کو بچایا اور اپنے خاندان کا نام بہادروں میں لکھوایا۔"

مقتول کے بھائی ساحل نواز نے بتایا کہ سلمان چار ماہ پہلے سعودی عرب اور پھر دو ماہ بعد عمان چلے گئے تھے جہاں بڑے بھائی شہباز اور ان کے بیوی بچے مقیم ہیں۔

ساحل کے مطابق نو محرم کو جب امام بارگاہ میں فائرنگ ہوئی تو سلمان بچوں کے سامنے ڈھال بن گئے تھے اور انہوں نے دونوں بھتیجوں کی جان بچائی۔ لیکن اس دوران ایک بچے کو گولی بھی لگی جو کہ اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

مقتول سلمان نیاز کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد دعا کی جا رہی ہے۔
مقتول سلمان نیاز کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد دعا کی جا رہی ہے۔

ساحل کے مطابق سلمان کی خواہش تھی کہ وہ چار پانچ سال بیرونِ ملک محنت مزدوری کرنے کے بعد وطن واپس آ کر اپنا گھر بنائے گا اور پھر شادی کرے گا لیکن کسے علم تھا کہ وہ دو ماہ بعد ہی ایک تابوت میں بند ہو کر وطن واپس لوٹے گا۔

'حملہ فرقہ واریت پر مبنی تھا'

عمان میں متعین پاکستانی سفیر عمران علی نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ مسقط کے علاقے وادیٔ کبیر کی امام بارگاہ پر حملہ دہشت گردی کا واقعہ تھا جس میں نہ تو حملہ آور پاکستانی تھے اور نہ ہی امام بارگاہ میں موجود پاکستانی ٹارگٹ تھے۔

ان کے بقول یہ فرقہ واریت پر مبنی حملہ تھا جس میں پاکستانیوں سمیت مختلف ملکوں کے لوگ نشانہ بنے۔

سفیر نے کہا کہ واقعے میں مارے جانے والے چاروں پاکستانی عام مقتولین نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دوسروں کو بچانے کے لیے دی ہے اور یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ پاکستانیوں کی بہادری کی ایک مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان یا عمان میں بہادری کا کوئی ایوارڈ بنتا ہے تو یہ چاروں مقتولین اس ایوارڈ کے حقدار ہیں جنہوں نے بچوں اور خواتین کو بچاتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا۔

پاکستانی سفیر عمران علی نے ایک مقتول سید قیصر عباس کے بارے میں بتایا کہ امام بارگاہ میں موجود دو لوگوں کو گولی لگی تھی جنہیں ریسکیو کرنے کے لیے قیصر آگے بڑھے لیکن دروازے کے قریب موجود اسنائپر نے انہیں نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔

سینئر تجزیہ کار محمد خالد جذبی کہتے ہیں کہ عمان دیگر خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں ایک مستحکم، پرامن اور مذہبی آزادی کا حامل ملک ہے جہاں تمام مذاہب اور مسالک کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن داعش کے حملے سے دنیا ایک بار پھر چونک گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد خالد جذبی نے کہا کہ دراصل یہ حملہ داعش کی بقا کی جنگ کی کوششوں کا حصہ ہے۔ شام اور عراق میں اس تنظیم کی نام نہاد خلافت کی شکست کے بعد اس کے زیرِ کنٹرول علاقے چھن جانے کی وجہ سے یہ تنظیم ایسے دہشت گردانہ حملے کر کے دنیا کو اپنے وجود کا احساس دلانا چاہتی ہے۔

ان کے بقول، عمان کے حکمران بظاہر شیعہ مسلک کے مخالف ہیں جہاں اہل تشیع کی تعداد پانچ فی صد ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹارگٹ اہل تشیع کو کیا گیا یا پھر عمان کی مملکت کو؟ کیوں کہ اس واقعے میں اگر اہلِ تشیع کا جانی نقصان ہوا ہے تو عمان حکومت کی سیکیورٹی پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔"

فورم

XS
SM
MD
LG