میانمار نے، جو برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پوشیدہ ملکی رازوں سے متعلق قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی کے جرم میں چار صحافیوں اور میگزین کےایک ناشر کو 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
’یونٹی جرنل‘ کے منتظم ایڈیٹر، تِن سان اور چار نامہ نگاروں کو اس سال جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن پر شمالی میانمار میں ایک کیمیاوی اور اسلحے کی مشتبہ فیکٹری کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے کا الزام ہے۔
فوجداری وکیل دفاع، کیو لِن نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو بتایا کہ اپیل دائر ہونے پر بالآخر یہ فیصلہ واپس لینا پڑے گا۔
بقول اُن کے، ’ہم اس کے خلاف اپیل میں جائیں گے، پہلے ڈویژن سطح کی عدالت اور بعدازاں یونین سپریم کورٹ میں۔ اگر میرے مؤکل چاہیں تو میں ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن، پہلی عدالت سے مجھے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ہیں، لیکن دوسری عدالت سے میں پُرامید ہوں‘۔
میانمار پریس کونسل (ایم پی سی) کے سیکریٹری، زوو تھیٹ ہوے نے اِن سخت سزاؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِن سے میڈیا اور حکومت کے تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔
’رپورٹرز وِداؤٹ بارڈرز‘ نے کہا ہے کہ اِن فیصلوں پر سخت افسوس ہوا ہے۔ ادارے سے ایشیائی ڈائرکیٹر، بینجامن اسماعیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا اُن کا ادارہ اپیل کے معاملے میں معاونت کرے گا۔
اس اقدام کے باعث میانمار میں آزادی صحافت کے بارےمیں تشویس بڑھی ہے، جہاں 2011ء میں براہ راست فوجی اقتدار ختم ہونے کے بعد کئی ایک اصلاحات نافذ کی گئی تھیں۔
یہ رپورٹ 25 جنوری کو ینگون میں قائم ’یونٹی جرنل‘ میں شائع ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وسطی برما کے پوئک قصبے میں خفیہ طور پر کیمیاوی ہتھیاروں کا ایک کارخانہ قائم کیا جا رہا ہے۔
حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ 12مربع کلومیٹر پر پھیلی یہ تنصیب وزارت دفاع کی فیکٹری ہے۔ تاہم، اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ اس کا کیمیائی ہتھیاروں سے کوئی تعلق ہے۔