ڈینگی کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ صرف مچھروں کے ذریعے انسانوں میں پھیلتا ہے لیکن اسپین کے محکمہ صحت نے جنسی تعلقات کے ذریعے ایک شخص کے ڈینگی سے متاثر ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اب تک سامنے آنے والا یہ دنیا کا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ کے علاقائی محکمہ صحت کی ایک عہدیدار سوسن جیمنیز کا کہنا ہے کہ میڈرڈ سے تعلق رکھنے والا ایک 41 سالہ شخص کیوبا گھومنے گیا تھا جہاں اس نے ایک مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے جو ڈینگی کا مریض تھا۔ اس تعلقات کے نتیجے میں وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہو گیا ہے۔
اکتالیس سالہ شخص میں ڈینگی کی تشخیص رواں برس ستمبر میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹرز اس شخص کے حوالے سے حیرت میں تھے کیوں کہ کیوبا ان ممالک میں شامل نہیں جہاں فلو، تیز بخار اور جسم میں درد سے متعلق مختلف امراض عام ہوں۔
اسٹاک ہوم میں قائم ادارے 'یورپین سینٹر فار ڈیزیز پری وینشن اینڈ کنٹرول' جو یورپ میں صحت اور بیماریوں پر گہری نظر رکھتا ہے، اس کی جانب سے ارسال کردہ ایک ای میل میں کہا گیا ہے کہ اسپین میں سامنے آنے والا کیس مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے سے ڈینگی کی منتقلی کا پہلا کیس ہے۔
سوسن جیمنیز کا کہنا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان ڈینگی کے جنسی طور پر منتقلی کا ایک کیس جنوبی کوریا میں بھی سامنے آچکا ہے لیکن وہ صرف امکانی حد تک تھا، اس کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی بنیادی طور پر 'ایڈس ایجیپٹی' نامی مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے جو گنجان آباد علاقوں میں واقع تالابوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی صرف انتہائی معاملات میں مہلک ہے۔ اس مرض کی علامات میں تیز بخار، شدید سر درد اور قے آنا شامل ہیں۔
ڈینگی جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا، کیریبین ممالک اور جنوبی و وسطی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔
اس وقت ڈینگی کے علاج کے لیے کوئی مخصوص دوا موجود نہیں البتہ ڈینگو کسیا، تیار کی جانے والی پہلی ویکسین صرف اُن لوگوں کے لیے مؤثر ہے جن کو پہلے ہی یہ مرض لاحق ہو چکا ہو۔
محققین نے اس سال کے شروع میں خبردار کیا تھا کہ اگلے 60 برسوں میں یہ بیماری پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے جب کہ 2080 تک دنیا کی 60 فی صد آبادی کے اس مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔
سب سے زیادہ اضافہ افریقہ میں متوقع ہے لیکن امریکہ کے بیشتر حصوں میں بھی اس مرض میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
ڈینگی نے 100 سے زائد ملکوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ تیز رفتار زندگی، غیر منصوبہ بند شہروں کے پھیلاؤ، بین البراعظمی سفر میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں ڈینگی پھیلنے کی رفتار میں بھی تیزی آرہی ہے۔
رواں سال جولائی میں بنگلہ دیش میں ڈینگی پھیلنے کی شرح اس قدر زیادہ رہی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں صرف ایک اسپتال میں 24 گھنٹوں کے دوران 1300 مریضوں میں ڈینگی کی تشخیص ہوئی۔
ستمبر میں نیپال میں بھی یہ مرض وبا بن کر پھیلا جب کہ بھارت نے اس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے جدید تکنیک استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تیکنیک میں تابکاری کے ذریعے مچھروں کو کنٹرول کیا جانا شامل ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس تکنیک کے ذریعے مچھروں کی افزائش بھی کم ہوسکے گی۔