امریکہ کے وفاقی محکمہ انصاف نے ریاست میسوری کے شہر فرگوسن کی طرف سے سفید فام افسروں کی اکثریت پر مشتمل محکمہ پولیس میں اصلاحات سے انکار کے بعد شہر کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
فرگوسن سٹی کونسل کا کہنا ہے کہ اصلاحات کے جس منصوبے پر وفاقی حکومت اور شہر کے حکام نے اتفاق کیا تھا اس پر عملدرآمد کے لیے بہت زیادہ رقم درکار ہے۔
بدھ کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل لوریٹا لنچ نے کہا کہ وہ لاگت کے بارے میں فرگوسن کے تحفظات کو سمجھتی ہیں مگر ’’آئینی حدود میں رہتے ہوئے پولیس اختیارات کے استعمال کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘
لوریٹا لنچ نے کہا کہ فرگوسن کے رہائشی ’’کئی دہائیوں سے انصاف‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں، ’’ان کے شہری حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں جس سے نسل کی بنیاد پر پولیس اختیارات کے استعمال کی روایت پڑی۔‘‘
اٹھارہ ماہ قبل ایک 18 سالہ غیر مسلح سیاہ فام لڑکے مائیکل براؤن کو سفید فام افسر ڈیرن ولسن کی طرف سے گولی مار کر ہلاک کیے جانے کے بعد محکمہ انصاف فرگوسن کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔ محکمہ انصاف کی گرینڈ جیوری نے نومبر 2014 میں مستعفی ہونے والے ڈیرن ولسن کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
مگر محکمہ انصاف کی رپورٹ میں پولیس اور منافع کی بنیاد پر چلنے والے میونسپل عدالتی نظام پر کڑی تنقید کی گئی۔ کئی ماہ تک مذاکرات کے بعد محکمہ انصاف اور فرگوسن نے جنوری میں ایک معاہدے کا اعلان کیا تھا۔
فرگوسن کے میئر جیمز نولز نے سٹی کونسل کی طرف سے اس معاہدے پر نظر ثانی کے متفقہ فیصلے کا دفاع کیا۔ نظر ثانی میں ایسی زبان کو حذف کر دیا گیا جس میں فرگوسن سے کہا گیا تھا کہ وہ پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کرے تاکہ بہتر امیدوار اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ افراد پولیس میں بھرتی کیے جا سکیں۔
جیمز نولز کے مطابق جب فرگوسن اور محکمہ انصاف نے گزشتہ ہفتے ایک عارضی معاہدے پر اتفاق کیا تو شہر کی انتظامیہ کو اس پر عملدرآمد پر آنے والی لاگت کا واضح اندازہ نہیں تھا۔