پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے اور یہاں کے عوام کو آئینی و قانونی حقوق دینے کا مطالبہ لے کر مختلف سیاسی جماعتوں اور قبائلی کے رہنماؤں کا احتجاج پشاور میں جاری ہے۔
پیر کو شروع ہونے والے اس احتجاج کے شرکا کا کہنا ہے حکومت اس دیرینہ مسئلے پر مبینہ طور پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دے رہی جب کہ اس معاملے پر قائم کردہ وفاقی حکومت کی کمیٹی پر بھی انھیں اعتماد نہیں رہا۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ چند ماہ قبل قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کا پیش کردہ بل فوری طور پر ایوان میں بحث اور منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
یہاں موجود لوگوں نے قبائلی علاقوں میں نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے خاتمے کے حق میں نعرے بازی کی اور قبائلیوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے نثار مہمند بھی احتجاج میں شامل ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک فاٹا کو خیبر پختونخواہ کا حصہ نہیں بنایا جاتا تو ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
وفاق کے زیرانتظام سات قبائلی ایجنسیاں ہیں جہاں ملک کا آئین لاگو نہیں۔ یہاں سے صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے نمائندوں کو انتخاب کیا جاتا ہے جب کہ ان علاقوں کے انتظامی معاملات گورنر خیبر پختوںخواہ پولیٹیکل ایجنٹس کے ذریعے چلاتے ہیں۔
وزیراعظم نے قبائلیوں کے مطالبات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کے لیے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کے ذمے یہاں کے عمائدین سے ملاقاتیں کر کے سفارشات مرتب کرنا تھا۔
قبائلیوں کا موقف رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انھیں شدید جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جس کے ازالے کے لیے بھی حکومتی کوششیں ان کے بقول ناکافی ہیں۔
2014ء میں شمالی وزیرستان اور پھر خیبر ایجنسی میں شروع ہونے والے فوجی آپریشنز کی وجہ سے بھی یہاں سے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی جب کہ اس سے قبل مختلف قبائلی علاقوں میں شورش اور سکیورٹی فورسز کی کارروائی کی وجہ سے لاکھوں مقامیوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔
تاہم اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کی اپنے علاقوں کو واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو کہ مرحلہ وار مکمل ہوگا۔
حکومت کے علاوہ پاکستان کی فوج بھی قبائلی علاقوں میں بحالی و تعمیر نو کے کاموں میں حصہ لے رہی ہے۔