پاکستان کے شمال مغرب میں قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور اس سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف تقریباً ایک دہائی سے جنگ جاری ہے اور گزشتہ ماہ عسکریت پسندوں کے سب سے اہم اور بڑے گڑھ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا جس میں فوجی قیادت کے مطابق جنگجوؤں کے کمانڈ اور روابط کے نظام کو ناکارہ بنا دیا گیا اور انہیں واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔
تاہم ان قبائلی علاقوں میں اب بھی فرسودہ قوانین کے تحت ایسا نظام موجود ہے جس کی وجہ سے ماہرین کے مطابق وہاں کے عوام اپنے کئی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اسی تناظر میں حزب اختلاف کی پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ صدر مملکت کی بجائے قبائلی علاقوں سے متعلق قانون سازی کا اختیار پارلیمان کو دیا جائے۔
پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں قانونی و انتظامی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔
’’یہ فاٹا، پاٹا کیا نام ہیں ایسا لگتا ہے کہ کیمسٹری کے فارمولے ہیں۔ پھر افغان جنگوں سے قبائلی علاقہ بہت پامال ہوا ہے، تباہی ہوئی ہے وہاں۔ لاکھوں بے گھر افراد ہیں۔ ریاست کے اداروں میں سے صرف انتظامیہ وہاں پر ہے۔ سیاسی جماعتوں سے متعلق قانون وہاں آیا مگر مکمل طور پر نفاذ ہی نہیں ہوا۔‘‘
ملک کے آئین کے تحت وفاقی پارلیمان میں قبائلی عوام کے نمائندوں کے باوجود ایوان بالا یا زیرین کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں بلکہ صدر مملکت صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنے نمائندے یعنی گورنر کے ذریعے وہاں کے انتظامات کو چلاتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن جیسا قانون بھی رائج ہے جسے حقوق انسانی کے کارکن اور کئی سیاست دان کالے قانون سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ اس قانون کے تحت قبائلی علاقوں میں تعینات وفاقی حکومت کے نمائندے یعنی پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس لا محدود اختیارات ہوتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے نائب صدر اجمل وزیر کہتے ہیں۔
’’جرگہ پولیٹیکل ایجنٹ کی بجائے انتخابات کے ذریعے بنایا جائے۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس دو اختیارات ہیں وہ ایک وقت میں ایڈمنسٹریٹر بھی ہے اور جج بھی۔ وہاں میڈیا کو رسائی دی جائے تو پتا چل جائے گا کہ کیا ہو رہا ہے وہاں۔‘‘
گزشتہ سالوں میں قبائلی علاقوں سے متعلق اصلاحات متعارف کروانے کے مطالبات میں غیر معمولی اضافے کے باجود اس پر کام کئی ماہرین اور سیاست دانوں کے بقول تیزی سے نا ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ سال کے اوائل تک حکومت میں رہی۔ جماعت اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر اس سست روی کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’اسٹیبلشمنٹ اپنے اختیارات نہیں چھوڑتی تو کچھ وہاں کے قانون ساز بھی کچھ نا کچھ اختیار نہیں دینا چاہتے اور یہی ہمارے بلدیاتی انتخابات کی تاخیر کی وجہ بھی بنی۔‘‘
آئین کے تحت پاکستان کے شمال مغرب میں سات قبائلی علاقے سپریم کورٹ یا کسی ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے اور پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو نواز شریف انتظامیہ نے حال ہی میں عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جس میں پارلیمان سے اس بارے میں قانون سازی کا کہا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ کوئی عدالت پارلیمان کو کسی قسم کی قانون سازی کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتی۔