کراچی کے نسبتاً غریب علاقے کے رہائشی عبدالقادر کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے طلبی کا خط موصول ہوا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔
فالودہ شربت بیچ کر گزر بسر کرنے والے عبدالقادر سے ایف آئی اے حکام نے معلوم کیا کہ آخر اس کے اکاؤنٹ میں 2 ارب روپے کہاں سے آئے؟ یہ سن کر پہلے تو وہ حواس باختہ ہوگیا اور پھر تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ اسے ایسے کسی اکاؤنٹ کا علم نہیں۔
پاکستان میں حال ہی میں بے نامی اور جعلی بینک اکاؤنٹس کی کئی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔ یہ بینک اکاؤنٹس جن افراد کے نام پر ہوتے ہیں۔ ان کے بجائے کوئی اور ان اکاؤنٹس کو آپریٹ کرتے ہیں۔ ایسے ہی واقعات رکشہ ڈرائیور اور سرکاری ملازمہ کے ساتھ بھی پیش آئے۔ سامنے آنے والے بیشتر بے نامی اکاونٹس 2014، 15 اور 16 میں مخصوص بینکوں میں کھولے گئے تھے۔
اکاؤنٹس کھولنے کا طریقہ کار کیا ہے:
وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کراچی میں ایک بینک کے سینئیر مینجر نے بتایا کہ کسی بھی شہری کے لئے اکاؤنٹ کھولنے کے لئے قومی شناختی کارڈ، بیرون ملک مقیم ہونے کی صورت میں پاسپورٹ، ملازمت یا کاروبار سے متعلق تفصیلی معلومات، جوائنٹ اکاؤنٹ یا کمپنی کا اکاؤنٹ کھولنے کے لئے نیشنل ٹیکس نمبر، رہائش کا پتہ اور دیگر معلومات درکار ہوتی ہیں۔ کسی بھی شخص کا قومی شناختی کارڈ نہ ہونے یا پھر زائد المعیاد ہونے کے باعث اس کا اکاؤنٹ نہیں کھولا جاسکتا یا پھر پہلے سے موجود اکاؤنٹ کو اس بنیاد پر منجمند کیا جاسکتا ہے۔
جعلی اکاؤنٹس کیسے کھل جاتے ہیں:
جعلی بینک اکاؤنٹس، اکاؤنٹ کھولنے کے اس کڑے طریقہ کار اور قانون کے باوجود بھی کھولے گئے۔ نامور سابق بینکر اور ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ ملک میں بینکنگ کلچر میں بہتری نہ آنے، قوانین پر عدم اطلاق، سیاسی اثر و رسوخ اور دباؤ جعلی بینک اکاونٹس کھولنے کا باعث بنتا ہے۔
شاہد حسن صدیقی کے مطابق جعلی بینکس اکاؤنٹس جن سالوں کے دوران کھولے گئے اس عرصے میں اسٹیٹ بینک کے گورنر، جن کی منظوری پر اس شخص کو متعلقہ بینک کا صدر لگایا گیا جس پر مختلف الزامات تھے، بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان اکاؤنٹس کے پیچھے سیاسی دباؤ اور اثر و رسوخ کی شکایات کی بھی تحقیقات ہونی چائیے۔
ماہر بینکار کے مطابق جب ان اکاؤٹس میں اربوں روپے منتقل کئے جارہے تھے تو اس وقت مرکزی بینک کا فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ، ایکسٹرنل آڈٹ یونٹ، اور ایف آئی اے اور نیب جیسے تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیوں نہ کیں؟
بینکنگ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے موجودہ قوانین کی روشنی میں اب شناختی کارڈ کی بائیو میٹرک سسٹم کے تحت تصدیق اور دیگر کاروباری معلومات کے بغیر اکاؤنٹ کھولنا ممکن نہیں۔ تاہم، درون خانہ مفادات، سیاسی دباؤ اور قوانین پر عملدرآمد میں سستی اس میں آڑے آتی ہے جس کا فائدہ کالے دھن کو سفید کرنے والے خوب اٹھاتے ہیں۔
ان معاملات پر کراچی کی بینکنگ کورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دو درجن سے زائد ملزمان پر کیس دائر ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اکاؤنٹس کی چھان بین جاری ہے اور اس بارے میں ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔
یہ خبریں ایسے وقت میں سامنے آرہی ہیں جب فناشنل ایکشن ٹاسک فورس کی ٹیم پاکستانی قوانین کا جائزہ لینے کے لئے ملک میں موجود ہے۔ اور انہیں خامیوں کی بنا پر رواں سال جون میں پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
پاکستانی بینکوں میں سامنے آنے والے ان سنگین بے قاعدگیوں پر تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات وسیع تو کردی ہیں مگر ماہرین معیشت کے مطابق، بے نامی اکاؤنٹس سے جان چھڑانے کے لئے جہاں مرکزی بینک کو خاصہ چوکس ہونا پڑے گا وہیں معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے بھی سخت اقدمات کرنا پڑیں گے۔