واشنگٹن —
درپیش تنازعہ یہ ہے کہ سر قلم کیے جانے کی وڈیوز کو انٹرنیٹ کے اِس معروف سماجی میڈیا پر پوسٹ کیے جانے کی اجازت دے جائے یا نہیں؟ اِس بارے میں، اِن دِنوں ناظرین کی طرف سے مختلف آراء پیش کی جا رہی ہیں۔
آزادیِ اظہار کے ضمن میں اِن دِنوں فیس بک پر ایک تنازع جاری ہے، جِس میں سر قلم کیے جانے کی وڈیوز کو انٹرنیٹ کے معروف سماجی میڈیا پر پوسٹ کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں مختلف آراء پیش کی جا رہی ہیں۔
دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد لوگ فیس بک سے استفادہ کرتے ہیں۔
مئی میں سر قلم کیے جانے سے متعلق وڈیوز کو شائع کیے جانے پر پابندی لگائی گئی تھی، کیونکہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ عمل متعدد ناظرین، خصوصاً جواں سال افراد کے نفسیاتی احساسات پر گراں گزر سکتا ہے۔
تاہم، امریکہ میں قائم اِس ادارے نے حالیہ دِنوں میں یہ پابندی اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پالیسی اِس لیے بدلی جا رہی ہے کہ ناظرین عالمی واقعات کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کر سکیں، جِن میں دہشت گرد حملے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات شامل ہیں۔
لیکن، ادارے نے جوں ہی یہ پالیسی بدلی، فیس بک کو ایک نئی تنقید کا سامنا رہا جس میں میکسیکو میں منشیات سے متعلق تشدد کے واقعے میں ایک خاتون کا سر قلم کیا گیا، اور وہ خون میں لت پت پڑی تھی۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے فیس بک کے خلاف حملوں میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ کمپنی نے خون آلود واقعے کی وڈیو شائع کرنے کی اجازت دے کر ’غیر ذمہ داری‘ کا ثبوت دیا، خصوصی طور پر یہ انتباہ نہ دے کر کہ کچھ ناظرین کو یہ ناگوار گزرے گا۔
تاہم، منگل کو رات گئے، فیس بُک نے خاتون کی یہ وڈیو ہٹالی اور تشدد پر مبنی تصاویر کو شائع کرنے سے متعلق اپنے مؤقف کی وضاحت پیش کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسی وڈیوز شائع کرنا قابلِ قبول نہ ہوگا، اگر یہ عام لوگوں کے مفاد اور تشویش کا باعث ہوں، ایسے میں جب فیس بک استعمال کرنے والوں نے اکثر تشدد کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔
سماجی ابلاغ کے ایک امریکی ماہر، پال لیونسن نے، جو ’فوردھام یونیورسٹی‘ کے پروفیسر ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قانونی طور پر فیس بک یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ سائٹ پر کون سی وڈیو شائع ہو اور کون سی نہیں، جن میں سر قلم کرنے کی وڈیوز بھی شامل ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے سوال کیا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ کسی خاص واقعے کو سمجھنے کے لیے بھیانک قسم کی تصاویری جھلک دکھائی جائے۔
آزادیِ اظہار کے ضمن میں اِن دِنوں فیس بک پر ایک تنازع جاری ہے، جِس میں سر قلم کیے جانے کی وڈیوز کو انٹرنیٹ کے معروف سماجی میڈیا پر پوسٹ کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں مختلف آراء پیش کی جا رہی ہیں۔
دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد لوگ فیس بک سے استفادہ کرتے ہیں۔
مئی میں سر قلم کیے جانے سے متعلق وڈیوز کو شائع کیے جانے پر پابندی لگائی گئی تھی، کیونکہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ عمل متعدد ناظرین، خصوصاً جواں سال افراد کے نفسیاتی احساسات پر گراں گزر سکتا ہے۔
تاہم، امریکہ میں قائم اِس ادارے نے حالیہ دِنوں میں یہ پابندی اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پالیسی اِس لیے بدلی جا رہی ہے کہ ناظرین عالمی واقعات کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کر سکیں، جِن میں دہشت گرد حملے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات شامل ہیں۔
لیکن، ادارے نے جوں ہی یہ پالیسی بدلی، فیس بک کو ایک نئی تنقید کا سامنا رہا جس میں میکسیکو میں منشیات سے متعلق تشدد کے واقعے میں ایک خاتون کا سر قلم کیا گیا، اور وہ خون میں لت پت پڑی تھی۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے فیس بک کے خلاف حملوں میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ کمپنی نے خون آلود واقعے کی وڈیو شائع کرنے کی اجازت دے کر ’غیر ذمہ داری‘ کا ثبوت دیا، خصوصی طور پر یہ انتباہ نہ دے کر کہ کچھ ناظرین کو یہ ناگوار گزرے گا۔
تاہم، منگل کو رات گئے، فیس بُک نے خاتون کی یہ وڈیو ہٹالی اور تشدد پر مبنی تصاویر کو شائع کرنے سے متعلق اپنے مؤقف کی وضاحت پیش کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسی وڈیوز شائع کرنا قابلِ قبول نہ ہوگا، اگر یہ عام لوگوں کے مفاد اور تشویش کا باعث ہوں، ایسے میں جب فیس بک استعمال کرنے والوں نے اکثر تشدد کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔
سماجی ابلاغ کے ایک امریکی ماہر، پال لیونسن نے، جو ’فوردھام یونیورسٹی‘ کے پروفیسر ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قانونی طور پر فیس بک یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ سائٹ پر کون سی وڈیو شائع ہو اور کون سی نہیں، جن میں سر قلم کرنے کی وڈیوز بھی شامل ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے سوال کیا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ کسی خاص واقعے کو سمجھنے کے لیے بھیانک قسم کی تصاویری جھلک دکھائی جائے۔