بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘فیس بک’ کے بھارت میں تعینات عہدیدار کو فروری میں ہونے والے فسادات کے دوران نفرت انگیز مواد کے قواعد و ضوابط صحیح طور پر لاگو نہ کرنے کے الزام میں طلب کر لیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حکام کا دعویٰ ہے کہ فیس بک کے قواعد پر عمل درآمد نہ کیے جانے کے سبب دہلی میں رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والے فسادات کو ہوا ملی۔
خیال رہے کہ نئی دہلی میں فروری میں متنازع شہریت بل کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے جن میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دہلی میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کرنے والی حکومتی کمیٹی کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ انہوں نے فیس بک کے بھارت میں تعینات سربراہ اجیت موہن کو رواں ماہ 15 ستمبر کو طلب کیا ہے۔
بھارت میں فیس بک انتظامیہ کی طرف سے طلب کیے جانے پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
بھارت میں فیس بک کو اس وقت سیاسی دباؤ کا سامنا ہے جو صارفین کے لحاظ سے فیس بک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔
امریکی اخبار ‘دی وال اسٹریٹ جنرل’ کی اگست میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت میں فیس بک کے ایک اہلکار نے مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک سیاست دان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر سے متعلق قواعد و ضوابط لاگو کرنے کی مخالفت کی تھی۔
اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے فیس بک کا کہنا تھا کہ فیس بک ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم ہے اور بی جے پی کے رکن پر فیس بک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
دارالحکومت نئی دہلی میں حکمران جماعت عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے آٹھ اور بی جے پی کے ایک رکن پر مشتمل کمیٹی کا بیان میں مزید کہنا ہے کہ انہیں فیس بک کے خلاف متعدد شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔
اس سے پہلے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق حکومتی پینل رواں ماہ دو ستمبر کو فیس بک کے عہدے داروں سے ملا تھا جس میں فیس بک پر پوسٹ ہونے والے مواد سے متعلق قواعد و ضوابط پر بات چیت کی گئی تھی۔
دہلی میں فروری کے آخری ہفتے میں پھوٹنے والے فسادات میں کم از کم 50 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
یہ فسادات ایسے وقت میں ہوئے تھے جب بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف مظاہرے جاری تھے۔ اقوامِ متحدہ سمیت دُنیا کے مختلف ملکوں نے ان فسادات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔