دہلی میں مسلم ہندو فسادات میں اب تک 39 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مرکزی حکومت نے شدید تنقید کے بعد دہلی پولیس کے سربراہ کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
بھارت کی مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ 36 گھنٹوں کے دوران ہنگامہ آرائی کا کوئی بڑا واقعہ سامنے نہیں آیا جس کے پیشِ نظر دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں بڑے اجتماعات پر پابندی 10 گھنٹے کے لیے اٹھائی جا رہی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک مرتبہ پھر جمعرات کو پولیس کے اعلیٰ افسران کے اجلاس کی صدارت کی اور صورتِ حال کا جائزہ لیا۔
وزارتِ داخلہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دو سے زائد افراد کے ایک مقام پر جمع ہونے پر عائد پابندی 10 گھنٹے کے لیے اٹھائی جا رہی ہے جس کا اطلاق صبح چار بجے سے صبح دس بجے اور پھر شام چار بجے سے رات آٹھ بجے تک ہو گا۔
دوسری جانب حکومت نے دہلی پولیس چیف امولیا پاٹنائیک کو تبدیل کرتے ہوئے اُن کی جگہ انڈین پولیس سروس کے افسر ایس این شری واستو کو دہلی پولیس چیف کا اضافی چارج سونپ دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق امولیا پاٹنائیک کو ہفتے کو ریٹائر ہونا تھا۔ اُن کی مدتِ ملازمت میں گزشتہ ماہ ہی ایک مہینے کی توسیع کی گئی تھی۔
دہلی میں چار روز کے دوران جلاؤ گھیراؤ، املاک کو نقصان پہنچانے سمیت مسلم ہندو فسادات پر قابو پانے میں ناکامی پر امولیا پاٹنائیک پر دہلی کے شہریوں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی تھی۔
دہلی پولیس نے متاثرہ علاقوں کے مکینوں سے اپیل کی ہے کہ اگر اُن کے پاس ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کی ویڈیوز یا دیگر شواہد ہیں تو وہ فراہم کریں۔ دہلی پولیس نے دو واٹس ایپ نمبرز بھی جاری کیے ہیں جن پر ویڈیو شواہد بھیجے جا سکتے ہیں۔
بھارتی ٹی وی 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے بتایا ہے کہ ہنگاموں کے دوران لوگوں کو پولیس پر اعتماد نہیں تھا جب کہ دہلی کے کمشنر پولیس کا کردار بھی مایوس کن تھا۔
بھارت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف اتوار کو ہونے والا احتجاج اس وقت پرتشدد صورت اختیار کر گیا جب مذکورہ قانون کے حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے تھے اور اس دوران دونوں گروہوں کے درمیان پتھراؤ اور تصادم ہوا تھا۔
یاد رہے کہ دہلی میں فسادات ایسے موقع پر شدت اختیار کر گئے تھے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو روزہ دورے پر بھارت میں موجود تھے۔