رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا: بھتہ خوری کے بڑھتے واقعات، پولیس کا خصوصی سیل قائم کرنے کا فیصلہ


پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ صوبے خیبرپختونخوا میں بھتہ خوری کی وارداتوں میں اضافے نے ایک طرف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پریشان کر رکھا ہے تو وہیں اس کے نتیجے میں صوبے کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تاہم پولیس نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈہ پور نے پیر کو صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں صوبے میں دہشت گردی بالخصوص بھتہ خوری کی وارداتوں میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی وضع کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان کے حالات کے وجہ سے دہشت گرد مضبوط اور مسلح ہوئے تو صوبائی حکومت نے بھی ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے پولیس فورس کو بھی ہر قسم کے جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

ان کے بقول بھتہ خوری کے خاتمے کے لیے انسداد دہشت گردی پولیس میں ایک خصوصی سیل قائم کیا جا رہا ہے۔اس خصوصی سیل کے ذریعے بھتہ خوری میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ادھر تاجر رہنما کہتے ہیں کہ بھتہ خوری کے بڑھتے واقعات کے باعث امیر گھرانوں بشمول سرمایہ کاروں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب اور کراچی سمیت مختلف شہروں کا رُخ کر لیا ہے۔

مقامی اخبار روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس نے حالیہ عرصے میں ایک ارب چھ لاکھ روپے بھتے کی شکایات پر مختلف مقدمات درج کیے ہیں۔

اس سلسلے میں جب وائس آف امریکہ نے اخبار کے صحافی عمر فاروق سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اصل رقم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر مقبول اور بااثر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے پولیس کو اطلاع دیے بغیر ہی بھتہ خوروں کے مطالبات مان کر بڑی رقوم کی ادائیگی کرکے معاملہ رفع دفع کردیا۔

پشاور کے تاجروں کی تنظیم کے ایک عہدےد ار حاجی شرافت علی مبارک نے بھی اس مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی فون کال پر بھتے کی کال کے بعد انہیں اس بارے میں بتایا جاتا ہے۔ مگر بعد ازاں ان کے علم میں لائے بغیر ہی معاملات خاموشی سے طے کیے جاتے ہیں۔

شرافت علی مبارک نے بھتہ خوری کے بڑھتے واقعات کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف پشاور بلکہ خیبرپختونؒخوا بھر میں کاروبار اور تجارتی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

ان کے بقول وہ اور ان کے ساتھی وقتاً فوقتاً اس مسئلے کو گورنر، وزیرِاعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام کے سامنے اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وعدے تو ہوتے ہیں مگر ابھی تک کسی بھی حکومت یا حکومتی عہدے دار نے کسی قسم کا عملی قدم نہیں اٹھایا۔

تحلیل شدہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے گزشتہ سال اگست کے اوائل میں وادی سوات کی تحصیل مٹہ، بونیر اور دیگر علاقوں میں عسکریت پسندوں کے منظر عام پر آنے کے بعد بھتہ خوری کی وارداتوں میں اضافے کی نشاندہی کی تھی۔ مگر سابق صوبائی حکومت میں شامل وزرا نے اس بارے میں کوئی خاطر خواہ جواب دینے سے گریز کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہناتھا کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد عسکریت پسندوں کے ہاتھوں جدید اور خودکار ہتھیاروں کی بڑی کھیپ لگی ہے۔

رپورٹ میں پولیس حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں کو ملنے والا یہ اسلحہ ان کے لیے 15 سال تک کے لیے کافی ہے۔

اس رپورٹ میں ایک پولیس عہدے دار نے بتایا کہ عسکریت پسند بھتے سے حاصل ہونے والی رقم کو ملک میں اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2022 سے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ رواں سال جنوری میں دہشت گردی کے دو واقعات میں 100 سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا گیا جس میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ دسمبر 2022 تک خیبرپختونخوا پولیس کے پاس صرف 40 تھرمل امیجنگ گنز موجود تھیں۔ تاہم جنوری 2023 تک پولیس نے مزید 660 تھرمل امیجنگ گنز کی خریداری مکمل کرکے تمام حساس اضلاع کی پولیس کے حوالے کی ہے۔

ماضی میں خیبرپختونخوا پولیس کو عسکریت پسندی میں ملوث عناصر سے نمٹنے کے لیے وہ اسلحہ، وسائل اور ضروریات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ اس بات کا اعتراف خود سابق آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری کرچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ دسمبر 2022 کے وسط میں تھرمل امیجنگ گنز کی خریداری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

خیبر پختونخوا پولیس کے موجودہ انسپکٹر جنرل اختر حیات گنڈہ پور نے چند روز قبل صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہاتھا کہ ہلاک پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو معاوضے میں ایک کروڑ روپے کی ادائیگی سے بہتر ان اہلکاروں کو اسلحے سے لیس بنانے پر توجہ دینا بہت اہم ہے۔

انہوں نے کہاتھا کہ عسکریت پسندی کے وارداتوں پر قابو پانے کے لیےاب پولیس فورس کو جدید اسلحے اور دیگر ضروری ساز و سامان سے لیس کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG