|
بھارت شمال مشرقی ہمالیائی ریاست اروناچل پردیش میں 12 پن بجلی گھروں کی تعمیر میں تیزی لانے کے لیے ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس علاقے پر چین بھی اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ بھارت کے اس اقدام سے دونوں ملکوں میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
رائٹرز نے دو سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ وفاقی وزارت خزانہ نے حال ہی میں شمال مشرقی علاقے میں ہر پن بجلی گھر کے لیے ساڑھے سات ارب رپوؤں تک کی مالی امداد کی منظوری دی ہے۔
اس معاملے کے بارے میں براہ راست معلومات رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت اروناپرچل پردیش کے پن بجلی کے منصوبوں کے لیے تقریباً 90 ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔
امکان ہے کہ اس منصوبے کے تحت شمال مشرقی ریاستوں کو مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ ریاستی حکومتوں کو ریگولیٹری بورڈ پر رکھنے سے مقامی آبادیوں کی بحالی کے پروگراموں اور میزبان ریاست کے ساتھ بجلی کی شیئرنگ کے لیے بات چیت میں تیزی لانے میں مدد ملتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پن بجلی گھروں کے اس منصوبوں کا اعلان مالی سال برائے 2024۔2025 میں متوقع ہے جس کا اعلان وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت 23 جولائی کو کرے گی۔ ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ یہ معلومات ابھی خفیہ رکھی گئی ہیں۔
بھارت کی خزانے اور بجلی کی وزارتوں اور چین کی وزارت خارجہ نے اس بارے میں تبصرے کے لیے کی گئی درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
گزشتہ سال اگست میں حکومت نے سرکاری کمپنیوں، نیشنل ہائیڈو پاور کمپنی(این ایچ پی سی)، ایس جے وی این۔این ایس اور نارتھ ایسٹرن الیکٹرک پاور کارپوریشن کو ساڑھے گیارہ گیگاواٹ صلاحیت کے بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے دیے تھے جن پر سرمایہ کاری کا تخمینہ 11 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ یہ منصوبے سرحدی علاقے میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہیں۔
ان میں سے کسی بھی کمپنی نے رائٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
ان بجلی گھروں کو پہلے نجی شعبے کی کمپنیوں کی فہرست میں ڈالا گیا تھا، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ان پر کام شروع نہیں ہو سکا تھا۔
بھارت نے گزشتہ 20 برسوں میں جو پن بجلی گھر بنائے ہیں، ان کی استعداد 15 گیگا واٹ سے بھی کم ہے، جب کہ کوئلے، اور توانائی کے دیگر قابل تجدید ذرائع سے چلنے والے بجلی گھروں کے منصوبوں کی استعداد نئے پن بجلی گھروں کے منصوبوں سے تقریباً 10 گنا زیادہ ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان تقریباً 2500 کلومیٹر کی سرحد پر زیادہ تر حد بندی کا کوئی نشان نہیں ہے جس کی وجہ سے علاقے کی ملکیت پر اختلافات اٹھتے رہتے ہیں۔ انہی اختلافات کی بنا پر دونوں ملک 1962 میں جنگ بھی لڑ چکے ہیں۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اروناچل پردیش اس کے ملک کا لازمی حصہ ہے، لیکن چین یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جنوبی تبت کا علاقہ ہے اور اس بنا پر وہ اس علاقے میں بھارت کی جانب سے بنائے جانے والی انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں پر اعتراض کرتا ہے۔
بھارتی حکومت مشرقی خطے میں ان خبروں کے بعد کہ بیجنگ دریائے برہم پترا پر ڈیم تعمیر کرسکتا ہے، اپنے منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ برہم پترا کو چین میں دریائے یارلنگ سنگ پو کہا جاتا ہے۔ یہ دریا تبت سے اروناچل پردیش میں بہتا ہے۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ چین کے منصوبوں سے خطے میں سیلابوں کے خطرات بڑھ سکتے ہیں یا پانی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
دونوں ملک اپنے سرحدی علاقوں میں 2020 کی جنگ کے بعد جس میں 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے تھے، انفرا اسٹرکچر کو ترقی دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں بھارت کے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے ملاقات کی تھی اور دونوں نے اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بات چیت میں تیزی لانے پر اتفاق کیا تھا۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)
فورم