برطانیہ کے یورپی یونین میں مستقبل کے معاملے پر ریفرنڈم کے لیے پولنگ کا وقت اب ختم ہو چکا ہے اور کچھ ہی دیر میں ووٹوں کی گنتی شروع ہوجائے گی۔
رائے دہندگان کے لیے ملک بھر میں تقریباً 41000 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے، جہاں مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے سے رات 10 بجے تک پولنگ کا عمل جاری رہا۔
ایک اندازے کے مطابق، حتمی نتائج کا باضابطہ اعلان جمعہ کی صبح متوقع ہے جبکہ علاقائی نتائج کا اعلان رات میں کیا جائے گا۔
پولنگ ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کے لیے بیلٹ باکس 382 علاقائی سینٹرز پہنچائے گئے۔
توقع ہے کہ علاقائی نتائج کے اعلان سے ریفرنڈم کے نتائج کی مجموعی تصویر رات ساڑھے تین بجے تک سامنے آسکے گی۔
ریفرنڈم کے لیے اہل ووٹروں کی تعداد لگ بھگ چار کروڑ 65 لاکھ تھی۔
الیکشن کمیشن کے اندازے کے مطابق، برطانیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ووٹروں کی اتنی بڑی تعداد یورپی یونین کی رکنیت پر ووٹ ڈالنے کی اہل تھی۔
ریفرنڈم میں لوگوں سے پوچھا گیا ہے کہ کیا برطانیہ کو یورپ سے الگ ہونا چاہیئے یا یورپی اتحاد میں رہنا چاہیئے۔
ریفرنڈم کے حتمی نتائج کا باضابطہ اعلان مانچسٹر میں چیف کاؤنٹنگ آفیسر کی طرف سے کیا جائے گا۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے سے متعلق ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے لیے آج صبح سے لاکھوں لوگوں نے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا۔
برطانیہ کے یورپی اتحاد میں رہنے کی مہم کی قیادت برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کی تھی جبکہ یورپ چھوڑنے کے معاملے پر مہم کی قیادت لندن کے سابق میئر بورس جانسن کررہے تھے.
وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کی اہلیہ سمانتھا کیمرون نے آج صبح لندن میں ویسٹ منسٹر کے ایک چرچ میتھوڈسٹ سینٹرل ہال میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
یورپی اتحاد کے حامی لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن نے لندن میں ازلنگٹن ٹاون ہال میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا.
ایوننگ اسٹینڈرڈ میں آج شائع ہونے والے اپسوس موری کے آخری انتخابی سروئے کے نتائج کے مطابق 52 فیصد ووٹرز یورپی اتحاد میں رہنا چاہتے ہیں اس کے مقابلے میں 48 فیصد افراد یورپ سے نکلنے کے حق میں اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
برطانوی عوام اپنے ووٹ کے بارے میں کیا کہتی ہے
ساری دنیا میں برطانیہ کی یورپی یونین میں رکنیت پر ریفرنڈم کو قریب سے دیکھا جا رہا ہے اور بالآخر اب وہ آخری لمحات ہیں جب برطانیہ کے مستقبل کا فیصلہ ہونے میں چند گھنٹوں کا فاصلہ رہ گیا ہے.
ریفرنڈم کے نتائج کیا ہوں گے اس بارے میں شمالی برطانیہ کے شہر شیفیلڈ کے لوگوں نے کافی ملی جلی رائے کا اظہار کیا ہے۔
تاہم، اس ریفرنڈم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آج خلاف روایت نوجوان ووٹرز اپنا ووٹ ڈالنے کےحوالے سے خاصے پرجوش نظر آئے۔
یورکشائر کاؤنٹی کے ٹاون شیفیلڈ میں اگرچہ ریفرنڈم کےحوالے سے گہما گہمی تو نہیں دکھائی دی البتہ سارا دن لوگ ٹولوں اور گروپ کی شکل میں پولنگ اسٹیشن آتے رہے۔
مسلمان کمیونٹیز اور بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے بھی ریفرنڈم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا ہے۔
شیفیلڈ میں زیادہ تر پولنگ اسٹیشن کے چرج اورلائبریری میں قائم کئے گئے تھے۔
احمد حسین اپنے اہل خانہ کے ساتھ ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ تاہم، ان کا ووٹ برطانیہ کے مستقبل پر کس طرح اثر انداز ہوسکتا ہے۔ وہ اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ البتہ، ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنا جانتے ہیں کہ انھوں نے برطانیہ کی بہتری کے لیے اپنا ووٹ ڈالا ہے۔
ایملی پیشے سے ایک استانی ہیں ان کا کہنا تھا کہ میرا ووٹ یقینا یورپی اتحاد کے لیے تھا اور اس کا فیصلہ تو میں نے کئی مہینے پہلے ہی کر لیا تھا.
ایڈم جان جو اپنی اہلیہ ماریہ کے ساتھ ووٹ ڈالنے آئے تھے اس بارے میں مطمئین تھے کہ ریمین مہم کی جیت پکی ہے، کیونکہ وہ اور ان جیسے کاروباری افراد یہی چاہتے ہیں کہ برطانیہ یورپ کے ساتھ رہے کیونکہ یورپ کے ساتھ برطانیہ مضبوط ہے۔
نغمہ ایک خاتون خانہ ہیں انھوں نے بتایا کہ وہ برطانیہ کے یورپ میں رہنے کی حمایت کرتی ہیں۔ لیکن، ان کے خیال سے گھر والے متفق نہیں ہیں۔ نغمہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی ایک قریبی سہیلی نے اپنا ووٹ اس لیے نہیں ڈالا ہے کیونکہ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہے کہ اس کا ووٹ کس فریق کے حق میں جانا چاہیئے۔