رسائی کے لنکس

ایران کے خلاف فوجی کاروائی پر یورپی یونین میں اختلافات


ایران کے خلاف فوجی کاروائی پر یورپی یونین میں اختلافات
ایران کے خلاف فوجی کاروائی پر یورپی یونین میں اختلافات

یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے متنازعہ حصوں پر عمل درآمد نہ روکا تو اس پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے گا۔ تاہم ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی تجویز پر یورپی حکام اختلافات کا شکار ہیں۔

پیر کو برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے واضح کیا کہ "فی الحال" ایران کے خلاف فوجی کاروائی زیرِ غور نہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے "تمام ممکنات میز پر رہنے چاہئیں"۔

نیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ اری روسنتھال نے بھی واضح کیا ہے کہ ایران کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی پر تبادلہ خیال خارج از امکان نہیں ہے۔

اس کے برعکس جرمن وزیرِ خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے ایران میں فوجی مداخلت کے آپشن پر تبادلہ خیال کے امکان کو قطعی طور پر رد کرتے ہوئے اس نوعیت کی گفتگوکو "نقصان دہ" قرار دیا ہے۔

اس سے قبل اتوار کو امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں "وسیع اثر اور امکانات" رکھتی ہیں۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ تہران حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے ایسے مزید اقدامات پر چین اور روس سے مشاورت کریں گے جن کے ذریعے ایران کو شہری مقاصد کے لیے کی جانے والی جوہری سرگرمیوں کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوششوں سے باز رکھا جاسکے۔

امریکی صدر نے گزشتہ روز جزیرہ نما ہوائی میں ہونے والے 'ایپک' سربراہ اجلاس کے دوران اپنے چینی اور روسی ہم منصبین سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔

ان ملاقاتوں میں جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کی اس حالیہ رپورٹ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس میں "قابلِ اعتبار" شہادتوں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایرانی حکومت جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ملاقاتوں کے بعد صدر اوباما کا کہنا تھا کہ چین اور روس متفق ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے اور خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

تاہم نہ چین اور نہ ہی روس نے اس نئے قضیے کے بعد ایران کے خلاف اقوامِ متحدہ کی مزید پابندیوں کی حمایت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG