ایتھوپیا کی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ پڑوسی ملک جنوبی سوڈان کی سرحد پار کرکے آنے والے جنگجووں کے حملے میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
ایتھوپین حکام کے مطابق جمعے کو کیے جانے والے حملے میں جنوبی سوڈان کے نسلی گروہ مرلے سے تعلق رکھنے والے جنگجوملوث تھے جنہیں ایتھوپین حکام نے "ڈکیت" قرار دیا ہے۔
حکام کے مطابق حملہ سرحدی علاقے جکایہ میں کیا گیا جہاں جنوبی سوڈان میں دسمبر 2013ء سے جاری خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے دو لاکھ سے زائد مہاجرین پناہ گزین ہیں۔
ایتھوپین حکام کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ حملہ آور فرار ہوتے وقت علاقے سے کئی بچے اغوا کرکے اپنے ساتھ جنوبی سوڈان لے گئے ہیں۔
ایتھوپیا کے وزیرِ اطلاعات گیٹاچیو ریدا نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا ہے کہ ایتھوپیا کے فوجی دستے حملہ آوروں کے تعاقب میں ہیں اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تعاقب کرنے والے ایتھوپین دستوں نے اب تک 60 سے زائد حملہ آوروں کو ہلاک کیا ہے اور ایتھوپین فوجی اہلکار حملہ آوروں کے تعاقب میں جنوبی سوڈان میں داخل ہوگئے ہیں۔
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ حملہ کرنے والا جنگجووں کا جنوبی سوڈان کی حکومت اور اس کے خلاف برسرِ پیکار باغیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
شمال مشرقی افریقہ میں واقع جنوبی سوڈان دنیا کا سب سے نوائیدہ ملک ہے جس نے 2011ء میں سوڈان سے آزادی حاصل کی تھی۔
تاہم آزادی کے لگ بھگ دو برس بعد ہی دسمبر 2013ء میں ملک کے بانی صدر سلوا کیر نے اپنے نائب ریک مچار کو عہدے سے برطرف کردیا تھا جس کے بعد دونوں رہنماؤں کے قبائل کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں۔
عالمی طاقتوں کے دباؤ کے بعد دونوں فریقوں نے گزشتہ سال اگست میں امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد رواں سال جنوری میں دونوں نے متفقہ حکومت کے قیام پر اتفاق کرلیا تھا۔
معاہدے کے تحت برطرف نائب صدر اور باغی گروہ کے سربراہ رِیک مچار پیر کو دارالحکومت جوبا پہنچ رہے ہیں جہاں وہ صدر سلوا کیر کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔